إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ
بیشک ہم مردوں کو زندہ کریں گے (١) اور ہم لکھتے جاتے ہیں اور وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے (٢)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ہی مردوں کو زندگی دیتے ہیں ہم ہی قیامت کے دن انھیں نئی زندگی میں پیدا کرنے پر قادر ہیں۔ اور اس میں اشارہ ہے کہ مردہ دلوں کے زندہ کرنے پر بھی اس اللہ کو قدرت ہے۔ وہ گمراہوں کو بھی راہ راست پر ڈال دیتا ہے جیسے سورہ حدید میں ارشاد فرمایا: ﴿اِعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ (الحدید: ۱۷) جان لو کہ اللہ تعالیٰ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے۔ ہم نے تمھاری سمجھ بوجھ کے لیے بہت کچھ بیان فرما دیا۔ اور ہم ان کے پہلے بھیجے ہوئے اعمال لکھ لیتے ہیں اور ان کے آثار بھی۔ (آثار سے مراد) یعنی جو یہ اپنے بعد باقی چھوڑ آئے ہیں۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ ’’جس نے اسلام میں کوئی نیک طریقہ جاری کیا اس کے لیے اس کا اجر بھی ہے۔ اور جو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا بغیر اس کے کہ ان میں سے کسی کے اجر میں کمی ہو۔ اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا، اس پر اس کے اپنے گناہ کا بھی بوجھ ہو گا اور اس کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا بغیر اس کے کہ ان میں سے کسی کے بوجھ میں کمی ہو ۔ (صحیح مسلم: ۱۰۱۷) ایک حدیث میں آتا ہے کہ انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے ایک علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ نیک اولاد جو مرنے والے کے لیے دعا کرے۔ اور صدقہ جاریہ، جس سے اس کے مرنے کے بعد بھی لوگ فیض یاب ہوں۔ (مسلم: ۱۶۳۱) آثار کا دوسرا مطلب نشانات قدم ہے۔ یعنی انسان نیکی یا بدی کے لیے جو سفر کرتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو قدموں کے یہ نشانات بھی لکھے جاتے ہیں۔ جیسے عہد رسالت میں مسجد نبوی کے نزدیک کچھ جگہ خالی تھی تو بنو سلمہ نے ادھر منتقل ہونے کا ارادہ کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں جب یہ بات آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مسجد کے قریب منتقل ہونے سے روک دیا۔ اور فرمایا (دیارکم تکتب اثارکم) (دو مرتبہ) فرمایا۔ یعنی تمہارے گھر اگرچہ دور ہیں لیکن وہیں رہو۔ جتنے قدم تم چل کر آتے ہو وہ لکھے جاتے ہیں۔ (صحیح: ۶۶۵)