وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ
اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کردی اور ایک آڑ ان کے پیچھے کردی (١) جس سے ہم نے ان کو ڈھانک دیا (٢) سو وہ نہیں دیکھ سکتے۔
یعنی دنیا کی زندگی ان کے لیے مزین کر دی گئی ہے یہ گویا ان کے سامنے کی آڑ ہے جس کی وجہ سے یعنی لذائذ دنیا کی وجہ سے کچھ نہیں دیکھتے اور یہی چیز ان کے اور ایمان کے درمیان مانع اور حجاب بن گئی ہے۔ اور آخرت کا تصور ان کے ذہنوں میں نا ممکن الوقوع ہے۔ گویا یہ ان کے پیچھے کی آڑ ہے۔ نہ پچھلی تاریخ سے کوئی سبق لیتے ہیں نہ مستقبل کے نتائج پر غور کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے نہ تو توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت ہی حاصل کرتے ہیں کیوں کہ آخرت کا کوئی خوف ان کے دلوں میں نہیں ہے وہ اپنی جاہلانہ اور مشرکانہ رسموں سے ہی چمٹا رہنا پسند کرتے ہیں۔ اور ان باتوں کے باطل ہونے پر کوئی بھی دلیل پیش کی جائے اس پر غور کرنا تو درکنار اسے سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ان کی آنکھوں کو ڈھانک دیا ہے: یعنی رسول اللہ سے عداوت اور اس کی دعوت حق سے نفرت نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے، یا انھیں اندھا کر دیا ہے۔ نہ حق دیکھ سکتے ہیں نہ حق کی طرف راہ پائیں نہ حق سے فائدہ اٹھائیں۔ پس اسلام و ایمان کے اور ان کے درمیان چو طرفہ روکاوٹ ہے۔ جیسے کہ قرآن میں ہے کہ جن پر تیرے رب کا کلمہ حق ہو چکا ہے تو وہ ایمان لانے کے ہی نہیں اگرچہ تو انھیں سب آیتیں بتا دے۔