وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ
قسم ہے قرآن با حکمت کی (١)
قرآن کا نزول ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی سب سے بڑی دلیل ہے: والقرآن میں واؤ قسم کے لیے ہے۔ ان تین مختصر سی آیات کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکمتوں سے معمور قرآن اس بات پر قوی شہادت ہے کہ (۱)آپ فی الواقع اللہ کے رسول ہیں (۲) دوسرے یہ کہ آپ سیدھی راہ پر گامزن ہیں۔ اور وہ شہادت یہ ہے کہ آپ اُمی تھے۔ کسی اُستاد کے سامنے زانوائے تلمذتہ نہیں کیا تھا۔ لکھ پڑھ بھی نہیں سکتے۔ یہ سب باتیں قریش مکہ ذاتی طور پر جانتے تھے۔ پھر چالیس سال کی عمر میں آپ کی زبان سے یک لخت ایسے کلام کا جاری ہونا جس نے تمام فصحاء و بلغائے عرب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں گنگ بنا دیا تھا۔ اور بار بار کے چیلنج کے باوجود وہ سب کے سب ایسا کلام پیش کرنے سے عاجز آ گئے تھے تو اس سے صاف واضح تھا کہ یہ کلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہو سکتا بلکہ کسی علیم و خیبر اور مافوق الفطرت ہستی کا ہی ہو سکتا ہے۔