إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا
یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں (١) اور اگر ٹل جائیں تو پھر اللہ کے سوا اور کوئی ان کو تھام بھی نہیں سکتا (٢) وہ حلیم غفور ہے۔ (٣)
یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت و طاقت دیکھو کہ آسمان و زمین اس کے حکم سے قائم ہیں۔ اور کمال قدرت کے ساتھ اس کی کمال مہربانی بھی ہے کہ وہ آسمان و زمین کو تھامے ہوئے بھی ہے۔ اور انھیں اپنی جگہ سے ہلنے اور ڈولنے نہیں دیتا۔ ورنہ پلک جھپکتے میں دنیا کا نظام تباہ و برباد ہو جائے۔ کیونکہ اگر وہ انھیں تھامے نہ رکھے اور انھیں اپنی جگہ سے پھیر دے تو اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو ان کو تھام لے۔ اللہ نے اپنے اس احسان اور نشانی کا تذکرہ سورہ روم میں ارشاد فرمایا ہے: ﴿وَ مِنْ اٰيٰتِهٖ اَنْ تَقُوْمَ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ بِاَمْرِهٖ ثُمَّ اِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِّنَ الْاَرْضِ اِذَااَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ﴾ ’’اُس نے آسمان کو زمین پر گرنے سے روکا ہوا ہے۔ مگر جب اس کا حکم ہو گا‘‘ ’’ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ آسمان و زمین اس کے حکم سے قائم ہیں۔‘‘ اتنی قدرتوں کے باوجود وہ حلیم ہے۔ اپنے بندوں کو دیکھتا ہے کہ وہ کفر اور شرک اور نافرمانی کر رہے ہیں پھر بھی وہ ان کی گرفت میں جلدی نہیں کرتا۔ بلکہ ڈھیل دیتا ہے اور غفور بھی ہے۔ کوئی تائب ہو کر اس کی بارگاہ میں جھک جاتا ہے اور توبہ و استغفار اور ندامت کا اظہار کرتا ہے تو وہ اس کو معاف فرما دیتا ہے۔