وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ قُلْ إِنَّ الْهُدَىٰ هُدَى اللَّهِ أَن يُؤْتَىٰ أَحَدٌ مِّثْلَ مَا أُوتِيتُمْ أَوْ يُحَاجُّوكُمْ عِندَ رَبِّكُمْ ۗ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور سوائے تمہارے دین پر چلنے والوں کے اور کسی کا یقین نہ کرو (١) آپ کہہ دیجئے کہ بیشک ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے (٢) (اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس بات کا بھی یقین نہ کرو) کہ کوئی اس جیسا دیا جائے جیسے تم دیئے گئے ہو (٣) یا یہ کہ تم سے تمہارے رب کے پاس جھگڑا کریں گے، آپ کہہ دیجئے کہ فضل تو اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہے اسے دے، اللہ تعالیٰ وسعت والا اور جاننے والا ہے۔
چوتھی کوشش ان کی یہ تھی کہ تم ظاہری طور پر تو اسلام کا اظہار ضرور کرو۔ لیکن اپنے مذہب یہودیت کے سوا کسی اور کی بات پر دھیان نہ دینا۔ اور خبردار انھیں تو رات کی کوئی ایسی بات بھی نہ بتانا جو تمہارے خلاف جاتی ہو ورنہ وہ قیامت کے دن اللہ کے حضور یہ کہہ دیں گے کہ ان باتوں کا تو یہ یہود خود بھی اقرار کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں اپنے پیارے پیغمبر سے فرمایا، کہ آپ کہہ دیجئے ان حیلوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ کیونکہ ہدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہ جس کو ہدایت دے یا دینا چاہے، تمہارے حیلے اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ فضل و شرف تو اللہ کے اختیار میں ہے: یہودی علما اپنے لوگوں کو تاکید کرتے تھے کہ دیکھو صرف ظاہر میں مسلمان ہونا۔ سچے مسلمان نہ ہوجانا اور یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ جیسا دین، جیسی وحی و شریعت اور جیسا علم و فضل تمہیں دیا گیا ہے۔ ویسا ہی کسی اور کو بھی دیا جاسکتا ہے یا تمہارے بجائے کوئی اور حق پر ہے۔اور تمہارے خلاف حجت قائم کرسکتا ہے اور تمہیں غلط ٹھہرا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کوششوں اور شرارتوں کا جواب یہ دیا کہ بیشک ایک وقت تھا جب اللہ نے تمہیں تمام جہان والوں پر عزت و شرف بخشا تھا۔ لیکن تم مسلسل فتنہ انگریزیوں اور بد عہدیوں کی وجہ سے اب اس قابل نہیں رہے۔ فضل و شرف تو اللہ کے اختیار میں ہے وہ جسے اس کا مستحق سمجھے گا اُسے عطا کرے گا اور وہ جانتا ہے کہ یہ فضل کس کو دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ تنگ نظر نہیں ہے۔ کہ فضل و شرف کے اہل لوگوں کو فضل و شرف عطا نہ فرمائے۔ وہ بڑا وسیع النظر ہے اور وہ جانتا ہے کہ تم اب اس فضل و شرف کے اہل نہیں رہے ہو۔