سورة سبأ - آیت 14

فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم بھیج دیا تو ان کی خبر جنات کو کسی نے نہ دی سوائے گھن کے کیڑے کے جو ان کے عصا کو کھا رہا تھا۔ پس جب (سلیمان) گر پڑے اس وقت جنوں نے جان لیا کہ اگر وہ غیب دان ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔ (١)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات: حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں جنات کے بارے میں مشہور ہو گیا تھا کہ یہ غیب کی باتیں جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت کے ذریعے اس عقیدے کے فساد کو واضح کر دیا جس وقت حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آ گیا اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف اشارہ ہو گیا کہ اب آپ دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں۔ تب آپ نے دعا کی کہ اے اللہ! میری موت کی خبر جنات پر ظاہر نہ ہونے دے تاکہ انسانوں کو یقین ہو جائے کہ جن غیب نہیں جانتے۔ آپ نے جنات کو بیت المقدس کی تعمیر پر لگایا ہوا تھا۔ جسے ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔ اس وقت تعمیر کا کافی کام ابھی باقی تھا آپ نے کام کا پورا نقشہ جنوں کے سربراہ کے حوالے کر دیا اور کام پوری طرح مکمل سمجھا دیا پھر اپنے عبادت خانے میں آ کر عبادت میں کھڑے ہو گئے اور اپنی لاٹھی سے ٹیک لگا لی۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی وفات اور جنوں کا کام کرتے رہنا: آپ کا یہ عبادت خانہ ایسا تھا جس میں شیشے کی کھڑکیاں تھیں اور باہر سے دیکھنے والا حضرت سلیمان علیہ السلام کو عبادت میں مصروف دیکھ سکتا تھا۔ آپ عبادت میں کھڑے تھے کہ اسی حالت میں فرشتے نے روح قبض کر لی۔ اور آپ لاٹھی کے سہارے کھڑے ہی رہے جن اور بعض دوسرے لوگ کبھی کبھار آپ کو عبادت میں مصروف دیکھ جاتے تھے اب ادھر بیت المقدس کی تعمیر مکمل ہوئی اور اُدھر وہ لاٹھی ٹوٹ گئی جس کے سہارے آپ کی میت کھڑی تھی۔ لاٹھی کو اندر ہی اندر دیمک نے چاٹ کر ختم کر دیا تھا۔ جن بھی غیب نہیں جانتا: لاٹھی ٹوٹی تو آپ علیہ السلام کی میت گر پڑی۔ تب لوگوں کو اور تعمیر پر متعین جنوں کو معلوم ہوا کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام تو بہت عرصہ پہلے کے فوت ہو چکے ہیں۔ اس وقت جنوں کو سخت افسوس ہوا کہ وہ اتنا عرصہ مفت میں مشقت جھیلتے رہے۔ اس وقت جنوں کی یہ غلط فہمی دور ہو گئی کہ وہ غیب جانتے ہیں اور ان لوگوں کی بھی جو یہ سمجھتے تھے کہ جن غیب جانتے ہیں اور اپنے اسی اعتقاد کی بنا پر جنوں کی تسخیر کے لیے طرح طرح کے چلے کاٹتے اور پاپڑ بیلتے تھے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ جس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہے اس کے لیے کیسے کیسے اسباب مہیا کر دیتا ہے۔ (تیسیر القرآن)