سورة سبأ - آیت 9

أَفَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں؟ (١) اگر ہم چاہیں تو انھیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں (٢) یقیناً اس میں پوری دلیل ہے ہر اس بندے کے لئے جو (دل سے) متوجہ ہو۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی کیا اس کی قدرت میں تم کوئی کمی دیکھ رہے جس نے محیط آسمان اور بسیط زمین پیدا کر دی، جہاں جاؤ نہ آسمان کا سایہ ختم ہو۔ نہ زمین کا فرش۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: ﴿وَ السَّمَآءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ۔ وَ الْاَرْضَ فَرَشْنٰهَا فَنِعْمَ الْمٰهِدُوْنَ﴾ (الذاریات: ۴۷۔ ۴۸) ’’ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم کشادگی والے ہیں۔ زمین کو ہم نے ہی بچھایا اور ہم بہت اچھے بچھانے والے ہیں۔‘‘ یہاں بھی فرمایا کہ آگے دیکھو، پیچھے دیکھو، اسی طرح دائیں نظر ڈالو، بائیں طرف التفات کرو تو وسیع آسمان اور بسیط زمین ہی نظر آئے گی۔ اتنی بڑی مخلوق کا خالق، اتنی زبردست قدرتوں پر قادر، کیا تم جیسی ایک چھوٹی سی مخلوق کو فنا کر کے پھر پیدا کرنے پر قدرت کھو بیٹھے گا؟ وہ تو قادر ہے۔ اگر چاہے تمہیں زمین میں دھنسا دے یا آسمان تم پر توڑ دے۔ یقیناً تمہارے ظلم اور گناہ اسی قابل ہیں۔ لیکن اللہ کا حکم اور اس کا عفو ہے کہ وہ تمہیں مہلت دئیے ہوئے ہے۔ جس میں عقل ہے، جس میں دور بینی کا مادہ ہے۔ جس میں غور و فکر کی عادت ہو۔ جس کی اللہ کی طرف جھکنے والی طبیعت ہو۔ جس کے سینے میں دل، دل میں حکمت اور حکمت میں نور ہو۔ وہ ان زبردست نشانات دیکھنے کے بعد اس قادر و خالق اللہ کی اس قدرت پر شک کر ہی نہیں سکتا، کہ مرنے کے بعد پھر جینا ہے۔ آسمانوں جیسے شامیانے اور زمینوں جیسے فرش جس نے پیدا کر دئیے اس پر انسان کی پیدائش کیا مشکل ہے۔ جس نے ہڈیوں، گوشت، کھال کو ابتداً پیدا کیا۔ اسے ان کے گل سڑ جانے اور ریزہ ریزہ ہو کر جھڑ جانے کے بعد اکٹھا کر کے اٹھا کھڑا کرنا کیا بھاری ہے؟ (ابن کثیر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو اس کو نہیں چھوڑتا۔ (بخاری: ۴۶۸۶، مسلم: ۲۵۸۳)