إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۗ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ
جنہوں نے ان کا کہنا مانا اور یہ نبی اور جو لوگ ایمان لائے (١) مومنوں کا ولی اور سہارا اللہ ہی ہے۔
عقائد و اعمال کے لحاظ سے سیدنا ابراہیم سے قریب تر وہ لوگ تھے جو ان کے پیروکار تھے یا پھر یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو ان کے پیروکار ہیں۔ اسی لیے قرآن کریم میں نبی کریم کو ملت ابراہیمی کا اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اِنِ اتَّبَعَ مِلَّتَ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا: غالباً اسی نسبت سے جو درود اُمت محمد یہ کو نماز میں پڑھنے کے لیے سکھایا گیا ہے۔ اس میں ایسے الفاظ وارد ہیں اور وہ اسی آیت کی تفسیر ہیں۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہر نبی کے نبیوں میں سے کچھ دوست ہوتے ہیں، میرے دلی (دوست) ان میں سے میرے باپ اور میرے رب کے خلیل ابراہیم علیہ السلام ہیں۔پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ (ترمذی: ۲۹۹۵۔ مستدرك حاكم: ۲/ ۲۹۲)