إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو (١)۔
اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مرتبہ و منزلت کا بیان ہے جو ملا اعلیٰ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرشتوں میں آپ کی تعریف کرتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں بھیجتا ہے اور فرشتے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے عالم سفلی (اہل زمین) کو بھی اس بات کا حکم دیا کہ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں علوی اور سفلی دونوں عالم متحد ہو جائیں۔ حدیث میں آتا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، یا رسول اللہ! سلام کا طریقہ تو ہم جانتے ہیں (یعنی ہم تشہد میں ’’ السلام علیک ایھا النبی‘‘ پڑھتے ہیں) ہم درود کس طرح پڑھیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درود ابراہیمی بیان فرمایا جو نماز میں پڑھا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری: ۴۷۹۷) نیز مختصراً نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ (القرآن الحکیم) ابو العالیہ سے مروی ہے کہ اللہ کا اپنے بندے پر درود بھیجنا، اپنے فرشتوں کے سامنے آپ کی ثنا و صفت کا بیان کرنا ہے اور فرشتوں کا درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا کرنا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی برکت کی دعا۔ (بخاری: ۴۷۹۸) درود و سلام کی اصل بنیاد یہ ہے کہ ہر مومن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہی ایمان کی نعمت نصیب ہوئی ہے۔ اور ایمان اتنی بڑی نعمت ہے کہ دین و دنیا کی کوئی نعمت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اور اس نعمت کا احسان مومن کبھی اُتار نہیں سکتے۔ تاہم ایمان داروں کو اتنا ضرور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے اس محسنِ اعظم کی محبت سے سرشار ہوں اور اس کے حق میں دعائے رحمت و برکت اور مغفرت کیا کریں۔ اس سے ان کے اپنے بھی درجات بلند ہوں گے اور ہر دفعہ درود پڑھنے کے عوض اللہ ان پر دس گنا درود یا اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا۔