تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا
ان میں سے جسے تو چاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے (١) اور تو ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلا لے جنہیں تو نے الگ کر رکھا تھا تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں (٢) اس میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ ان عورتوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ بھی تو انھیں دیدے اس پر سب کی سب راضی ہیں۔ (٣)
بیویوں کی باری کے سلسلے میں آپ کو خصوصی رعایت: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیویوں کے درمیان باریاں مقرر کرنے میں اختیار دے دیا گیا تھا۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس کی باری چاہیں موقوف کر دیں، یعنی اسے نکاح میں رکھتے ہوئے اس سے مباشرت نہ کریں اور جس سے چاہیں یہ تعلق قائم رکھیں۔ جسے چاہیں اپنے پاس بلالیں۔ یعنی جن بیویوں کی باریاں موقوف کر رکھی تھیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں تو ان سے بھی مباشرت کا تعلق قائم کیا جائے تو یہ اجازت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ وہ خوش رہیں گی: یعنی باری موقوف ہونے اور ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کے باوجود وہ خوش ہوں گی اور جتنا کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انھیں مل جائے گا اسی پر مطمئن رہیں گی کیوں؟ اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب کچھ اللہ کے حکم اور اجازت سے کر رہے ہیں۔ اور یہ ازواج مطہرات اللہ کے فیصلے سے راضی اور مطمئن ہیں۔ اختیار کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے استعمال نہیں کیا: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بیوی کی باری کے دن دوسری بیوی کے ہاں جانا منظور ہوتا تو آپ باری والی بیوی سے اجازت لیا کرتے تھے معاذہ(راوی) کہتے ہیں کہ اس آیت کے اترنے کے بعد میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے اجازت لیتے تو آپ کیا کہتیں؟‘‘ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’ میں تو کہتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پوچھتے ہیں تو میں تو یہ چاہتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ہی رہیں۔ (بخاری: ۴۷۸۹، حوالہ ایضاً، تیسیر القرآن) سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے جو بہت بوڑھی ہو گئیں تھیں۔ اپنا دن رات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بخش دیا تھا۔ ان کی غرض یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوں۔ (بخاری: ۲۵۹۳) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری سخت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بیویوں سے بیماری میں میرے گھر میں رہنے کی اجازت چاہی تو انھوں نے اجازت دے دی۔ (بخاری: ۲۵۸۸) مسند احمد میں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے طور پر صحیح تقسیم اور پورے عدل کے بعد اللہ سے عرض کیا کرتے تھے کہ الہ العالمین جہاں تک میرے بس میں تھا میں نے انصاف کر دیا۔ اب جو میرے بس میں نہیں، اس پر تو مجھے ملامت نہ کرنا۔ (احمد: ۶/ ۱۴۴، ابو داؤد: ۲۱۳۴) یعنی دل کے رجوع کرنے کا اختیار مجھے نہیں، اللہ سینوں کی باتوں کا عالم ہے، لیکن حلم و کرم والا ہے۔ چشم پوشی کرتا ہے معاف کرتا ہے۔ (ابن کثیر)