يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
اے مومنوں جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو (١) پس تم کچھ نہ کچھ انھیں دے دو (٢) پھر بھلے طریقے سے رخصت کر دو (٣)۔
طلاق دینے والے کو ہدایات: اس آیت میں چند امور قابل ذکر ہیں پہلا یہ کہ اگرچہ آیت میں مومن عورتوں سے نکاح کا ذکر ہے۔ تاہم اگر نکاح کتابیہ (یعنی اہل کتاب) سے ہو تو وہ بھی اسی حکم میں داخل ہے۔ دوسرا یہ صحبت سے پیشتر طلاق دینے سے بھی نصف حق مہر ادا کرنا واجب ہے۔ بشرطیکہ حق مہر طے ہو چکا ہو۔ (سوہ بقرہ ۲۳۷) تیسرا یہ کہ اگر حق مہر مقرر ہی نہ کیا گیا ہو تو پھر کچھ نہیں دینا ہو گا البتہ دونوں صورتوں میں عورت کو کچھ نہ کچھ دے دلا کر رخصت کرنا چاہیے۔ اور اس کچھ نہ کچھ کی مقدار طلاق دینے والے مالی كی حیثیت کے لحاظ سے ہو گی۔ چوتھا یہ کہ اگر عورت کو طلاق ہی دینا ہے تو پھر اس پر کوئی الزام نہ لگانا چاہیے نہ اسے بد نام کر کے گھر سے نکالنا چاہیے۔ جو اس کی آیندہ زندگی پر ناخوشگوار اثر ڈالے بھلے طریقے سے رخصت کرنے کا یہی مطلب ہے۔ اور پانچواں اور سب سے اہم امر یہ ہے کہ عدت کے دوران بھی مطلقہ عورت اپنے خاوند کی بیوی ہی رہتی ہے۔ اور یہ مرد کا عورت پر حق ہے۔ اس دوران مرد رجوع کا حق رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں اس دوران اگر حمل معلوم ہو جائے تو بچہ بھی طلاق دینے والے مرد کا ہو گا اور وہ اس کا وراث بھی ہو گا۔ صحبت سے پہلے طلاق دینے میں اگرچہ حمل وغیرہ کا احتمال ہی نہیں ہوتا لہٰذا مدخولہ عورت پر کوئی عدت نہیں۔ وہ اگر چاہے تو طلاق کے بعد فوراً نکاح کر سکتی ہے۔ (تیسیر القرآن)