سورة الأحزاب - آیت 37

وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یاد کرو) جبکہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا کہ جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر تو نے اپنے دل میں وہ جو چھپائے ہوئے تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار تھا کہ تو اسے ڈرے (١) پس جب کہ زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کرلی (٢) ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا (٣) تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالک بیویوں کے بارے میں کسی طرح تنگی نہ رہے جب کہ وہ اپنی غرض ان سے پوری کرلیں (٤) اللہ کا (یہ) حکم تو ہو کر ہی رہنے والا ہے (٥)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

حضرت حارثہ پر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات: حضرت زید رضی اللہ عنہ پر اللہ کا انعام یہ تھا کہ انھیں قبول اسلام کی توفیق دی۔ اور غلامی سے نجات دلائی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان ان پر یہ تھا کہ ان کی دینی تربیت کی۔ ان کو آزاد کر کے اپنا بیٹا بنایا۔ اور اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی لڑکی سے ان کا نکاح کروایا۔ دل میں چھپانے والی بات: چونکہ ان دونوں کے مزاج میں فرق تھا، بیوی کے مزاج میں خاندانی نسب و شرف رچا ہوا تھا۔ جبکہ زید رضی اللہ عنہ کے دامن پر غلامی کا داغ تھا۔ ان کی آپس میں ان بَن رہتی تھی۔ جس کا تذکرہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے رہتے تھے اور طلاق کا عندیہ بھی ظاہر کرتے تھے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو طلاق دینے سے روکتے اور نباہ کرنے کی تلقین فرماتے ۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پیش گوئی سے بھی آگاہ فرما دیا تھا کہ زید رضی اللہ عنہ کی طرف سے طلاق واقع ہو کر رہے گی اور اس کے بعد زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے کر دیا جائے گا تاکہ جاہلیت کی اس رسم تبنیت پر ایک کاری ضرب لگا کر واضح کر دیا جائے کہ منہ بولا بیٹا احکام شرعیہ میں حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے اور اس کی مطلقہ سے نکاح جائز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی بات کو چھپاتے اور اس بات سے ڈرتے تھے کہ لوگ کہیں گے اپنی بہو سے نکاح کر لیا۔ حالانکہ جب اللہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اس رسم کا خاتمہ کرانا تھا تو پھر لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خوف اگرچہ فطری تھا اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ فرمائی گئی۔ ظاہر کرنے سے مراد: یہی ہے کہ یہ نکاح ہو گا جس سے یہ بات سب کے علم میں آ جائے گی۔ (القرآن الحکیم) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر اللہ کی وحی کتاب اللہ میں ایک آیت بھی چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپا لیتے۔ (تفسیر طبری۲۰/ ۲۷۲ مسلم: ۵۷) حاجت پوری کر چکے: مطلب یہ کہ زید رضی اللہ عنہ ان سے سیر ہو گئے اور سمجھانے کے باوجود میل ملاپ قائم نہ رہ سکا، بلکہ طلاق ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت زینب کو بھی اپنے نبی کے نکاح میں دے دیا۔ اللہ کے حکم سے نکاح قائم ہوا۔ یعنی یہ نکاح معروف طریقے کے برعکس صرف اللہ کے حکم سے نکاح قرار دیا گیا۔ نکاح خوانی، ولایت، حق مہر اور گواہوں کے بغیر ہی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں پر فخر کیا کرتیں کہ تم کو تو تمہارے اولیا نے بیاہا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے بیاہ دیا۔ (بخاری: ۷۴۲۰، ابن کثیر، القرآن الحکیم) اللہ کا حکم: وہ حکم یہ تھا کہ متبنی اصل بیٹے کا مقام نہیں رکھتا کہ اس کی مطلقہ بیوی حرام ہو جائے اور اللہ اس غلط رسم کو بہر حال ختم کرنا چاہتا تھا۔