وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو (١) اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکٰوۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو (٢) اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اپنے نبی کی گھر والیو! (٣) تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔
بن سنور کر آزادانہ پھرنا: یعنی وضاحت کر دی گئی کہ عورت کا دائرہ عمل اس کا گھر ہے۔ گویا اس آیت کی رو سے گھروں سے باہر آزاد نہ آنے جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو عورتوں کا اور بالخصوص ازواج النبی کا گھر سے باہر بے حجاب نکلنا سخت شاق گزرتا تھا چنانچہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کو پردہ میں رکھیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بات پر کچھ توجہ نہ دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اکثر رات کو (رفع حاجات کے لیے) مناصع کی طرف جاتیں۔ ایک رات سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا جو قد میں لمبی تھیں نکلیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں میں بیٹھے بیٹھے ہی کہنے لگے: ’’ سودہ! ہم نے تجھے پہچان لیا‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس توقع پر یہ بات کی کہ کسی طرح جلد پردہ کا حکم نازل ہو۔ آیت حجاب کا نزول اور ضرورت سے نکلنے کی اجازت: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے سنی تو گھر آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ’’ میں ضرورت سے باہر نکلی تھی لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے ایسی ایسی گفتگو کی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے اور بیٹھے رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ ایک ہڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی۔ اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنا شروع ہوئی۔ پھر وحی کی حالت موقوف ہو گئی اور ہڈی اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے رکھا نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم عورتوں کو ضرورت سے باہر نکلنے کی اجازت دی گئی۔‘‘ (بخاری: ۴۷۹۳) عورتوں کی حقیقی ضروریات: جن کی بنا پر وہ گھر سے نکل سکتی ہیں فریضہ حج کی ادائیگی نماز کے لیے مسجد یا عید گاہ میں جانا، اپنے اقارب سے ملاقات اور ان کی تقاریب مثلاً نکاح اور شادی میں شمولیت، عیادت مریض، اور تعزیت موتی کے لیے جانا۔ ان میں سے کچھ حاجات تو سفر کی نوعیت رکھتی ہیں اور بعض پر سفر کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اب ان کے متعلق ارشادات نبوی ملاحظہ فرمائیے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! میری بیوی حج کے لیے نکلی ہے اور میرا نام فلاں فلاں غزوں میں لکھا گیا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوٹ جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر۔‘‘ (بخاری: ۶۸۸۲) عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی عورت ایک دن رات کی مسافت کا سفر نہ کرے۔ اِلا یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔(ترمذی: ۱۱۷۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب عورت اکیلی گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔ یعنی اپنا آلہ کار بناتا ہے۔‘‘ (ترمذی: ۱۱۷۳) عورتوں کا مسجد میں نماز کے لیے آنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ اگر تمہاری بیویاں تم سے مسجد جانے کی اجازت طلب کریں تو انھیں مت روکو۔‘‘ (مسلم: ۳۱۵) عورت کی بہترین جائے نماز گھر کی اندرونی جگہ ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت کی اپنے گھر کی اندرونی کوٹھری کی نماز گھر کی نماز سے افضل ہے۔ اور گھر کی نماز صحن کی نماز سے افضل ہے ۔ (ابو داؤد: ۵۶۵) دور جاہلیت سے مراد: یعنی زندگی کا وہ طرز عمل، جو اسلامی تہذیب و ثقافت، اخلاق و آداب اور اسلامی ذہنیت کے خلاف ہو وہ جاہلیت ہے۔ اور جاہلیت اولیٰ سے مراد اسلام سے پہلے کا تاریک دور ہے جب عورتیں بے پردہ پھرتی تھیں۔ اگر آج بھی معاشرہ میں وہی پرانی رسوم رائج ہو جائیں تو یہ دور بھی دور جاہلیت ہی کہلائے گا۔ تبرج میں کیا کچھ شامل ہے: یعنی اپنی زینت، جسمانی محاسن اور میک اَپ دوسروں کو اور بالخصوص مردوں کو دکھانے کی کوشش کرنا۔ اس میں پانچ چیزیں شامل ہیں۔ (۱)اپنے جسم کے محاسن کی نمائش (۲)زیورات کی نمائش اور جھنکار (۳)پہنے ہوئے کپڑوں کی نمائش (۴)رفتار میں بانکپن اور نازو ادا(۵)خوشبویات کا استعمال جو غیر مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرے۔ ان کاموں سے روکنے کے بعد اب کچھ احکام جاری ہو رہے ہیں کہ اللہ کی عبادت میں سب سے بڑی عبادت نماز ہے۔ اس کی پابندی کرو۔ اور بہت اچھی طرح سے اس کو ادا کرتی رہو۔ اسی طرح مخلوق کے ساتھ بھی نیک سلوک کرو۔ یعنی زکوٰۃ نکالتی رہو۔ ان خاص احکام کی بجا آوری کا حکم دے کر پھر عام طور پر اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا۔ اہل بیت سے مراد کون لوگ ہیں: اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اہل بیت میں داخل ہیں۔ اس لیے کہ یہ آیت انہی کے بارے میں اتری ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا اہل بیت سے ہر قسم کے میل کچیل کو دور کرنے کا ارادہ ہو چکا ہے کہ وہ تمہیں بالکل پاک صاف کر دے گا۔ حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ تو بازاروں میں منادی کرتے پھرتے تھے کہ یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں ہی کے بارے میں خالصتاً نازل ہوئی ہے۔(ابن جریر، تفسیر طبری، ابن کثیر)