وَأَنزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُم مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا
اور جن اہل کتاب نے ان سے سازباز کرلی تھی انھیں (بھی) اللہ تعالیٰ نے ان کے قلعوں سے نکال دیا اور ان کے دلوں میں (بھی) رعب بھر دیا کہ تم ان کے ایک گروہ کو قتل کر رہے ہو اور ایک گروہ کو قیدی بنا رہے ہو۔
کفار نے عین موقع پر دھوکا دیا: بنو قریظہ کے یہودی جو مدینے میں تھے اور جن کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عہدو و پیمان ہو چکا تھا انہوں نے بھی عین موقعہ پر بے وفائی کی اور عہد توڑ کر آنکھیں دکھانے لگے۔ ان کے سردار کعب بن اسد کو حی بن اخطب خبیث نے بد عہدی پر آمادہ کر دیا۔ پہلے تو یہ نہ مانا اور اپنے عہد پر قائم رہا، حی نے کہا دیکھ تو سہی میں تجھے عزت کا تاج پہنانے آیا ہوں۔ قریش اور اس کے ساتھی غطفان اور ان کے ساتھی ہم سب ایک ساتھ ہیں ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک مسلمانوں کا صفایا نہ کر لیں یہاں سے نہیں ہٹیں گے کعب چونکہ جہاندیدہ شخص تھا اس نے کہا میرے سامنے سے ہٹ جا اور مجھے اپنی مکاری کا شکار نہ بنا۔ لیکن حی پھر بھی نہ ٹلا۔ اور اسے سمجھاتا بجھاتا رہا آخر میں کہنے لگا۔ سن اگر بالفرض قریش اور غطفان بھاگ بھی جائیں تو میں مع اپنی جماعت کے تیری گڑھی میں آ جاؤں گا پھر جو کچھ تیرا اور تیری قوم کا حال ہو گا وہی میرا اور میری قوم کا حال ہو گا بالآخر حی کا کعب پر جادو چل گیا اور بنو قریظہ نے صلح توڑ دی۔ جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بہت صدمہ ہوا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے غلاموں کی مدد کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے اصحاب کے مدینے شریف کو واپس آئے تو صحابہ نے ہتھیار کھول دئیے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہتھیار اُتار کر حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کے گھر میں گرد و غبار سے پاک ہونے کے لیے غسل کرنے کے لیے بیٹھے ہی تھے کہ حضرت جبرئیل ظاہر ہوئے اور فرمانے لگے کہ یا رسول اللہ کیا آپ نے کمر کھول لی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا لیکن فرشتوں نے اب تک اپنے ہتھیار الگ نہیں کیے۔ (ابن کثیر) بنو قریظہ کا محاصرہ: جبرئیل نے فرمایا: سنیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ چلیے اب بنو قریظہ سے نمٹنا ہے مجھے اللہ نے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں اعلان فرما دیا بلکہ ان کو تاکید کر دی کہ عصر کی نماز وہاں جا کر پڑھنی ہے۔ ان کی آبادی مدینے سے چند میل کے فاصلے پر تھی۔ یہ اپنے قلعوں میں بند ہو گئے باہر سے مسلمانوں نےمحاصرہ کر لیا جو کم و بیش پچیس روز جاری رہا۔ بالآخر انہوں نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو اپنا حکم (ثالث) تسلیم کر لیا کہ جو فیصلہ وہ ہماری بابت دیں گے، ہمیں منظور ہو گا۔ چنانچہ انھوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان میں سے لڑنے والے لوگوں کو قتل اور بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کا مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ سن کر فرمایا کہ یہی فیصلہ آسمانوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کا بھی ہے۔ اس کے مطابق ان کے جنگ جو افراد کی گردنیں اُڑا دی گئیں اور مدینے کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کر دیا گیا۔ (احسن البیان)