مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا
مومنوں میں (ایسے) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انھیں سچا کر دکھایا (١) بعض نے تو اپنا عہد پورا کر (٢) دیا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ (٣)
اس عہد سے مراد وہ عہد ہے جو لیلۃ العقبہ ثانیہ میں انصار کے بہتر (۷۲) افراد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا۔ اور وہ عہد یہ تھا کہ ہم مرتے دم تک آپ کا ساتھ دیں گے۔ (تیسیر القرآن) اللہ سے کئے ہوئے عہد کو نبھانے والے: یہ آیت ان بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے اس موقعہ پر جانثاری کے عجیب و غریب جوہر دکھائے تھے اور انہی میں وہ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں۔ جو جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے۔ لیکن انہوں نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ اب آیندہ کوئی معرکہ پیش آیا تو جہاد میں بھرپور حصہ لیں گے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ (القرآن الحکیم) ۱۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت (میرے چچا) انس بن نضر رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی۔‘‘ (بخاری: ۴۷۸۴) ۲۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میرا نام میرے چچا نضر بن انس کے نام پر رکھا گیا تھا۔ وہ جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر نہ ہو سکے تھے اور یہ بات ان پر بہت شاق گزری۔ اور کہا کہ: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر رہنے کا پہلا موقع تھا جس سے میں غائب رہا۔ اللہ کی قسم! اب اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہونے کا موقع آیا تو اللہ تعالیٰ خود دیکھ لے گا کہ میں کیا کچھ کرتا ہوں۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ پھر وہ ڈر گئے کہ ان الفاظ کے علاوہ کچھ اور لفظ کہنا مناسب تھا۔ پھر جب اگلے سال اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہوئے تو انھیں (راہ میں) سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ملے۔ انہوں نے پوچھا: ’’ ابو عمرو! کہاں جاتے ہو‘‘ انس کہنے لگے’’ واہ میں تو اُحد (پہاڑ) کے پار جنت کی خوشبو پا رہا ہوں چنانچہ وہ (بڑی جرأت سے) لڑے۔ حتی کہ شہید ہو گئے اور ان کے جسم پر ضربوں، نیزوں اور تیروں کے (۸۵)سے زیادہ زخم پائے گئے میری پھوپھی ربیع بنت نضر رضی اللہ عنہا کہنے لگی: میں اپنے بھائی کی نعش کو صرف اس کی پوروں سے پہچان سکی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسلم: ۱۹۰۳، تیسیر القرآن)