يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا ۖ وَإِن يَأْتِ الْأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِي الْأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنبَائِكُمْ ۖ وَلَوْ كَانُوا فِيكُم مَّا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا
سمجھتے ہیں کہ اب تک لشکر چلے نہیں گئے (١) اور اگر فوجیں آجائیں تو تمنائیں کرتے ہیں کہ کاش! وہ صحرا میں بادیہ نشینوں کے ساتھ ہوتے کہ تمہاری خبریں دریافت کیا کرتے، اگر وہ تم میں موجود ہوتے (تو بھی کیا ؟) نہ لڑتے مگر برائے نام (٢)
ان کی بزدلی اور ڈرپوکی کا یہ عالم ہے کہ اب تک انھیں اس بات کا یقین ہی نہیں ہوا کہ کفار کا لشکر لوٹ گیا ہے۔ اور انھیں خطرہ ہے کہ وہ پھر کہیں آ نہ پڑے مشرکین کے لشکروں کو دیکھتے ہی ان کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کاش کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ اس شہر میں ہی نہ ہوتے۔ بلکہ گنواروں کے ساتھ کسی اُجاڑ گاؤں یا کسی دور دراز کے جنگل میں ہوتے۔ کسی آتے جاتے سے پوچھ لیتے کہ کہو بھئی لڑائی کا کیا حشر ہوا۔ اللہ فرماتا ہے کہ یہ اگر تمہارے ساتھ بھی ہوں تو بیکار ہیں۔ ان کے دل مردہ ہیں۔ نامرادی کے گھن نے انھیں کھوکھلا کر رکھا ہے۔ یہ کیا لڑیں گے اور کون سی بہادری دکھائیں گے؟ (ابن کثیر)