فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
اس لیے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آ جانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں کہ آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کو اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بلا لیں، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں۔ (١)
یہ آیت مباہلہ کہلاتی ہے۔ مباہلہ کے معنی ہیں: دو فریق کا ایک دوسرے پر لعنت کرنا یعنی بد دعا کرنا۔ مطلب یہ ہےكہ جب دو فریقوں میں کسی معاملے کے حق یا باطل ہونے میں اختلاف ہوجائے اور دلائل سے وہ ختم ہوتا نظر نہ آئے تودونوں بارگاہ الٰہی میں یہ دعا کریں کہ یا اللہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے، اس پر لعنت فرما اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ ۹ ہجری میں نجران کے عیسائیو ں کا ایک وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عیسیٰ کے بارے میں جو وہ غلوآمیز عقائد رکھتے تھے اس پر بحث و مناظرہ کرنے لگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں مباہلہ کی دعوت دی۔ حضر ت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین کو بھی ساتھ لیا۔ اور عیسائیوں سے کہا کہ تم بھی اپنے اہل و عیال کو بلا لو۔ پھر ہم مل کر جھوٹے پر لعنت کی بد دعا کریں گے۔ عیسائیوں نے سوچنے سمجھنے اور مشورہ کرنے کے لیے مہلت مانگی، پھر ان کی مجلس مشاورت میں ایک ہوشمند بوڑھے نے کہا: اے گروہ! انصار تمہیں معلوم ہے کہ اللہ نے بنی اسماعیل میں سے ایک نبی بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ ممکن ہے یہ وہی نبی ہو۔ جو باتیں اس نے کہی ہیں وہ صاف اور فیصلہ کن ہیں۔ اور اگر یہ واقعی وہ نبی ہیں تو تم کیا تمہاری نسلوں کی بھی خیر نہیں ہوگی بہتر یہی ہے کہ ہم ان سے صلح کرلیں۔ اور اپنے وطن لوٹ جائیں ۔ چنانچہ دوسرے دن انھوں نے جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے فیصلہ سے مطلع کردیا اور صلح کی درخواست کی اور جزیہ دینا قبول کرلیا۔ (بخاری: ۴۳۸۰)