وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ ۖ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ
بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پس آپ کو ہرگز اس کی ملاقات میں شک نہ کرنا (١) چاہیے اور ہم نے اسے (٢) بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس کے بارے میں شک و شبہ میں نہ رہ۔ اس جملہ میں خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے مگر مخاطب سارے مومنین ہیں کیونکہ نبی سب سے پہلے خود اپنی نبوت پر ایمان لاتا ہے۔ پھر دوسروں کو ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔ لہٰذا منزل من اللہ کلام پر رسول کا شک کرنا محالات میں سے ہے۔ اور ایسا انداز خطاب عموماً تاکید مزید کے لیے آتا ہے یعنی مسلمانوں کو کسی قیمت پر بھی اس میں شک نہ کرنا چاہیے۔ (تیسیر القرآن) حدیث میں ہے میں نے معراج والی رات حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ گندم گوں رنگ کے، لانبے قدم کے، گھنگھریالے بالوں والے تھے ایسے جیسے قبیلہ از دشنوء ہ کے آدمی ہوتے ہیں۔ اسی رات میں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا وہ درمیانہ قد کے سرخ سفید رنگت والے تھے۔ سیدھے بال تھے۔ میں نے اس رات ’’مالک‘‘ کو دیکھا جو جہنم کا داروغہ ہے اور دجال کو دیکھا۔ یہ سب ان نشانیوں میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھائیں پس تو اس ملاقات میں شک و شبہ نہ کر۔ آپ نے یقینا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا اور ان سے ملے جس رات آپ کو معراج کرائی گئی۔ (تفسیر طبری، مسلم: ۱۶۵) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ وَكِيْلًا﴾ (بنی اسرائیل: ۲) ’’ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہادی بنا یاکہ تم میرے سوا کسی کو کار ساز نہ بناؤ۔‘‘