وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۚ بَلْ هُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ
اور انہوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں رل مل جائیں گے (١) کیا پھر نئی پیدائش میں آجائیں گے؟ بلکہ (بات یہ ہے) کہ وہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں۔
انسان کے روز آخرت سے انکار کی اصل وجہ: اس آیت میں کفار کا وہ عقیدہ بیان ہو رہا ہے کہ مرنے کے بعد جینے کے قائل نہیں۔ اور اسے وہ محال جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے، پھر بھی کیا ہم نئے سرے سے بنائے جا سکتے ہیں؟ افسوس یہ لوگ اپنے اوپر اللہ کو بھی قیاس کرتے ہیں اور اپنی محدود قدرت پر اللہ کی لا محدود قدرت کا اندازہ کرتے ہیں، مانتے ہیں، جانتے ہیں کہ اللہ نے اول بار پیدا کیا ہے۔ تعجب ہے کہ پھر اسے دوبارہ پیدا کرنے پر قادر کیوں نہیں مانتے؟ حالانکہ اس کا تو صرف حکم چلتا ہے۔ جہاں کہا، ہو جا وہیں ہو گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کے حضور پیش ہونے اور آخرت میں اپنے اعمال کی جوابدہی سے گھبراتے اور جی چراتے ہیں۔ (ابن کثیر)