سورة لقمان - آیت 31

أَلَمْ تَرَ أَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللَّهِ لِيُرِيَكُم مِّنْ آيَاتِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ دریا میں کشتیاں اللہ کے فضل سے چل رہی ہیں اس لئے کہ وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے، (١) یقیناً اس میں ہر ایک صبر و شکر کرنے والے (٢) کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

طوفان میں کون یاد آتاہے: اللہ کے حکم سے سمندروں میں جہاز رانی ہو رہی ہے اگر وہ پانی میں کشتی کو تھامنے کی اور کشتی کو پانی کو کاٹنے کی طاقت، قوت نہ رکھتاتو پانی میں کشتیاں کیسے چلتیں ۔ وہ تمہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھلارہاہے۔ مصیبت میں صبراور راحت میں شکر کرنے والے ان سے بہت کچھ عبرتیں حاصل کرسکتے ہیں۔ جب ان کفار کو سمندروں میں موجیں گھیرلیتی ہیں اور ان کی کشتی ڈگمگانے لگتی ہے اور موجیں پہاڑوں کی طرح ادھر سے ادھر، کشتیوں کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرنے لگتی ہیں تو اپنا شرک و کفر سب بھول جاتے ہیں اور گریہ زاری میں ایک اللہ کو پکارنے لگتے ہیں چنانچہ ارشاد فرمایا: ﴿وَ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّا اِيَّاهُ﴾ (بنی اسرائیل: ۶۷) ’’دریا میں جب تمہیں ضررپہنچتاہے تو بجزاللہ کے سب کو کھوبیٹھتے ہو۔‘‘ (ابن کثیر)