وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ
اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ خوب خوش ہوجاتے ہیں اور اگر انھیں ان کے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے کوئی برائی پہنچے تو ایک دم وہ محض ناامید ہوجاتے ہیں (١)
انسان کی تنگ ظرفی: اس آیت میں انسان کی ناشکری اورتنگ ظرفی کاذکرہے۔ انسان کی عادت ہے کہ جب اس پرخوشحالی کے دن آتے ہیں تو پھولا نہیں سماتا۔ اس کی وضع قطع،چال ڈھال اور گفتگو سے ہی اس کی نخوت کاپتہ چل جاتاہے۔اس وقت نہ وہ اپنے مالک کوخاطرمیں لاتاہے نہ اس کی مخلوق کواوریہ سمجھنے لگتاہے کہ اسے ہی سرخاب کے پرلگے ہوئے تھے جواسے عیش وآرام میسرہے۔پھرجب کسی وقت بُرے دن آجاتے ہیں تو اللہ کی ناشکری ہی کرنے لگتاہے۔اس کے برعکس مومن کی حالت بالکل اس کے اُلٹ ہوتی ہے اس پرخوشحالی کے دن آئیں تووہ اللہ کاشکراداکرتاہے اوراس کے آگے پہلے سے زیادہ جھک جاتاہے۔اورجب سختی کے دن آئیں تونہایت صبروتحمل سے یہ دن گزارتاہے۔اورہرحال میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ’’مومن پرتعجب ہے کہ اس کے لیے اللہ کی قضابہترہی ہوتی ہے۔راحت پرشکرکرتاہے توبھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ اورمصیبت پرصبرکرتاہے تو بھی اس کے لیے بہترہوتا ہے۔ (مسلم: ۲۹۹۹، تیسیر القرآن)