فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کردیں (١) اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (٢) اس اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں (٣) یہی سیدھا دین ہے (٤) لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (٥)
یعنی جب یہ بات واضح ہوچکی کہ مشرک اپنے حق میں ایسی تقسیم گوارا نہیں کرتے۔ پھر بھی اگراللہ کی مخلوق کواس کاشریک بناڈالیں تواس سے بڑاظلم کیاہوسکتاہے۔توآپ کوچاہیے کہ ان مشرکوں کی لغو بات پرہرگزتوجہ نہ دیں اوردوسرے تمام مذاہب سے اپنی توجہ ہٹاکرصرف دین اسلام یاخالص اللہ کی ہی عبادت کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ہربچہ اصل فطرت پرپیداہوتاہے۔فطرت کے اصل معنی خلقت(پیدائش)کے ہیں۔ اور یہ بات ہر انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے۔کہ اس کاخالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے۔اوروہ اس کابندہ اورغلام ہے۔چنانچہ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہرپیداہونے والا بچہ فطرت(اسلام)پرپیداہوتاہے۔پھراس کے والدین اسے یہودی بنالیں یا عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ (بخاری: ۴۷۷۵) ایک اور روایت میں ہے کہ کسی غزوہ میں صحابہ کرام نے مشرکوں کے بچوں کوبھی مارڈالا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھاتم نے بچوں کوکیوں مارڈالا۔انہوں نے جواب دیا۔یارسول اللہ! یہ مشرکوں کی اولادتھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اب جوتم میں عمدہ مسلمان ہیں کیاوہ مشرکوں کی اولاد نہیں ہیں۔ (بخاری: ۱۳۸۳، مسلم: ۲۱۶۰) ان احادیث سے پتہ چلتاہے کہ انسان کی فطرت اصلی پراس کے والدین یاماحول کاگہرااثرہوتاہے۔اورغلط ماحول میں وہ فطرت اصلیہ دب جاتی ہے۔لہٰذااللہ کی اس خلقت یعنی(فطرت)کوتبدیل نہ کرو بلکہ صحیح تربیت کے ذریعے سے اس کی نشوونما کرو، تاکہ ایمان وتوحیدبچوں کے دل ودماغ میں راسخ ہوجائے ۔اورجس دین کی طرف متوجہ اوریکسوہونے کاحکم دیاہے یافطرت کاتقاضا ہے وہ یہی دین قیم ہے۔ (احسن البیان) یہ سیدھادین کیاہے؟ چند موٹی اورسیدھی سیدھی باتیں جنہیں سب مذاہب والے یکساں تسلیم کرتے ہیں اوروہ باتیں یہ ہیں۔ (۱) اللہ ہی سب کاخالق اور مالک ہے۔ اور حاکم ہے۔ وہ اپنی ذات میں یکتا ہے۔ اس کاکوئی ہمسرنہیں اس کاسب پرزورچلتاہے اس پرکسی کازورنہیں چلتا۔لہٰذااسی کے نام کی تسبیح کرناچاہیے۔ (ا)کسی کے جان ومال کونقصان پہنچانا،(۲)کسی کی عزت پرحملہ کرنا یا تہمت لگانا، دغا فریب کرنا سب بُراسمجھتے ہیں،اورسچ بولنا،غریب پرترس کھانا،حق دار کو اس کاپوراحق اداکرنا،سب اسے بہترسمجھتے ہیں اوراس کی تلقین کرتے ہیں یہی سچا دین۔ جسے ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے۔ (تیسیرالقرآن)