وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں (١) تاکہ تم آرام پاؤ (٢) اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی (٣) یقیناً غورو فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت نشانیاں ہیں۔
مرد اور عورت۔ طالب بھی مطلوب بھی: یعنی مٹی کے پتلے سے ہی اس کا جوڑ ا پیداکرتاہے ۔ مطلب یہ کہ دنیا کی پہلی عورت حضرت حوا کو حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا کیا، پھر ان دونوں سے نسل انسانی کا سلسلہ چلا، تاکہ تم سکون پاؤ: یعنی یہ دونوں ایک دوسرے کے طالب بھی ہیں اور مطلوب بھی ۔ مرد کو عورت سے اور عورت کو مرد سے سکون حاصل ہوتاہے اور دونوں میں ایک دوسرے کے لیے اس قدر کشش رکھ دی کہ وہ ایک دوسرے سے دور رہ کر سکون حاصل کرہی نہیں سکتے۔ (تیسیر القرآن) مودۃ: سے مراد ہے کہ مرد بیوی سے بے پناہ پیارکرتاہے اور ایسے ہی بیوی شوہر سے پیار کرتی ہے جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔ جیسی محبت میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے، دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی اور رحمت یہ ہے کہ مرد بیوی کو ہر طرح کی سہولت اور آسائشیں بہم پہنچاتاہے جس کامکلف اسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور ایسے ہی عورت بھی اپنے قدرت واختیار کے دائرہ میں اپنے خاوند کو سہولت پہنچاتی ہے، تاہم انسان کو یہ سکون اور باہمی پیار انہی جوڑوں سے حاصل ہوتا ہے، جو قانون شریعت کے مطابق باہم نکاح سے قائم ہوتے ہیں۔ اور اسلام انہی کو جوڑا قرار دیتاہے۔ غیر قانونی جوڑوں کو وہ جوڑا ہی تسلیم نہیں کرتا بلکہ انھیں زانی اور بدکار قرار دیتا ہے۔ (احسن البیان)