سورة العنكبوت - آیت 62

اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے فراخ روزی دیتا ہے اور جسے چاہے تنگ (١) یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے والا ہے (٢)۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ کی حکمتیں: اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ فلاں بندے کواگرزیادہ رزق دیاگیاتووہ اس سے خیراوربھلائی ہی کمائے گا۔ اور اگر فلاں کو زیادہ دیاگیاتووہ میری یادسے غافل،سرکش اورمتکبربن جائے گا۔مال کی محبت انسان کی فطرت میں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہے۔اورہرانسان چاہتا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ مال ودولت ملے ۔لیکن اللہ تعالیٰ اسے اتناہی دیتاہے جتناوہ خودچاہتاہے۔کسی کوزیادہ کسی کوکم ۔لیکن یہ نہیں ہوسکتاکہ کسی کوکچھ بھی نہ دے۔اوراس میں بھی اس کی کئی حکمتیں اوربندوں کی بے شمار مصلحتیں مضمر ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک شخص جنگل میں کھڑاتھا کہ اچانک اس نے بادل سے ایک آواز سنی۔ (کسی نے آوازدی)کہ فلاں آدمی کے باغ کوپانی پلاؤ۔چنانچہ بادل ایک طرف چلااوراپناپانی ایک سنگلاخ زمین پر برسا دیا۔ پھر نالیوں میں سے ایک نالے نے ساراپانی جمع کرلیا۔وہ آدمی پانی کے پیچھے چلا کیا دیکھاکہ ایک شخص اپنے باغ میں کھڑاہے۔اوراپنے بیلچے سے پانی ادھراُدھرتقسیم کررہاہے۔اس آدمی نے کہا:’’اللہ کے بندے تمہارانام کیاہے؟‘‘اس نے کہا’’فلاں‘‘ اور وہی نام لیا جواس نے بادل سے سناتھا۔پھراس نے دریافت کیاکہ اے اللہ کے بندے! تو میرا نام کیوں پوچھتا ہے اس نے کہاکہ میں نے اس بادل سے جس کایہ پانی ہے آواز سنی تھی کہ فلاں کے باغ کوپانی پلااورتیرانام لیا پس تواپنے باغ میں کیاکرتاہے۔اس نے کہاجب تونے پوچھاہے تومیں بتادیتاہوں کہ جوکچھ میرے باغ میں پیداہوتاہے۔اس کاایک تہائی حصہ میں صدقہ کردیتا ہوں۔ اور ایک تہائی میں اورمیراعیال کھاتاہے۔اورایک تہائی اس باغ میں لگا دیتا ہوں۔ (مسلم: ۲۷۲۴) اس سے معلوم ہواکہ مال کم یازیادہ دینے میں اللہ کی کیاکچھ حکمتیں پوشیدہ ہیں۔