اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ
جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے (١) اور نماز قائم کریں (٢) یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے (٣) بیشک اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے (٤)
اخلاص،خوف اور اللہ کاذکر: اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان والوں کو حکم دے رہاہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہیں۔ قرآن کریم کی تلاوت متعدد مقاصد کے لیے مطلوب ہے یعنی اجر وثواب کے لیے، اس کے معانی ومطالب پر تدبر وتفکر کے لیے، تعلیم و تدریس کے لیے اور وعظ ونصیحت کے لیے۔ یہ ساری صورتیں تلاوت کے حکم میں شامل ہیں۔ اور نمازوں کی نگہبانی کریں اور پابندی سے پڑھتے رہا کریں ۔ نماز انسان کو ناشائستہ کاموں اور نالائق حرکتوں سے باز رکھتی ہے۔ مسند میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے کہا:’’حضورصلی اللہ علیہ وسلم فلاں شخص نماز پڑھتاہے لیکن چوری نہیں چھوڑتا ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب اس کی نماز اس سے یہ برائی چھڑا دے گی۔ (مسند احمد: ۲/ ۴۴۷) نماز انسان کاتعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑتی ہے، جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے، جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کے عزم وثبات اور ہدایت کاذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ اسی لیے قرآن کریم میں کہاگیاہے: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ﴾ (البقرۃ: ۱۵۳) ’’اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرلو۔‘‘ مطلب یہ کہ نماز کے ذریعے سے انسان کااپنے رب سے خصوصی ربط و تعلق پیداہوتاہے وہ قدم قدم پر اس کی دستگیری اور راہنمائی کرتاہے اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی تنہائی میں تہجد کی نماز پڑھنے کی تاکید کی گئی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو عظیم کام سونپاگیاتھا اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی مدد کی بہت ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ خود جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا اہتمام فرماتے۔ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے: عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کون سا کام اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا۔ (بخاری: ۵۲۷، مسلم: ۸۵) جس طرح دوائوں کی مختلف تاثیرات ہیں اور کہاجاتاہے کہ فلاں دوافلاں بیماری کو روکتی ہے اور ایسا ہوتا بھی ہے، لیکن کب؟ جب دو باتوں کا التزام کیاجائے،ایک دوائی پابندی کے ساتھ اور اس طریقے اور شرائط کے ساتھ استعمال کی جائے جو ڈاکٹر یا حکیم بتلائے، دوسرا پرہیز یعنی ایسی چیزوں سے اجتناب کیاجائے جو اس دوائی کے اثرات کو زائل کرنے والی ہوں ۔اسی طرح نماز کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے یقیناً ایسی روحانی تاثیر رکھی ہے کہ یہ انسان کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اسی وقت جب نماز کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ان آداب و شرائط کے ساتھ پڑھاجائے جو اس کی حجت و قبولیت کے لیے ضروری ہیں مثلاً (۱)اس کے لیے پہلی چیز اخلاص ہے ۔ (۲)طہارت قلب یعنی نماز میں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف التفات نہ ہو (۳) با جماعت اوقات مقررہ پر اس کااہتمام (۴)ارکان صلوٰۃ( قراءت، رکوع، قومہ، سجدہ وغیرہ ) میں اعتدال و اطمینان، خشوع و خضوع اور رقت کی کیفیت (۵)پابندی کے ساتھ اس کاالتزام (۶)رزق حلال کااہتمام۔ لیکن افسوس ہماری نمازیں ان آداب وشرائط سے عاری ہیں۔ اس لیے ان کے وہ اثرات بھی ہماری زندگی میں ظاہر نہیں ہو رہے جو قرآن کریم میں بتلائے گئے ہیں یعنی نماز پڑھنے والے کو چاہیے کہ وہ بے حیائی اور برائی سے رک جائے۔ اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے : تمام تر عبادتوں کی روح روا ں اللہ کی یاد ہے: (۱) اللہ ہی سے انسان غافل ہوا تو انسان عبادت کیسے کرسکتاہے۔ (۲)دوسرے یہ کہ تمام عبادات اسی صورت میں بطریق احسن انجام دی جاسکتی ہیں کہ اس عبادت کے دوران اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو (۳) اللہ کو یاد کرنا، زبان سے اللہ اللہ کہنااور دل میں ہر وقت اللہ کو یاد رکھنا بذات خود بڑا نیکی کاکام ہے ۔ (۴)اگر بندہ اللہ کو یاد کرے تو اللہ بھی بندے کو یاد کرتاہے (فاذکرونی اذکرکم ) اور ظاہر ہے کہ اللہ کابندے کو یاد کرنا بہت بڑی بات ہے۔ اللہ اسے بھی جانتاہے جو اس کے ذکر سے رطب اللسان رہتاہے اور اسے بھی جو اس کی یاد سے غافل رہتاہے پھر ہر ایک سے اس کے عمل کے مطابق سلوک کرے گا۔