وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ
اور حضرت لوط (علیہ السلام) کا بھی ذکر کرو جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم بدکاری پر اتر آئے ہو (١) جسے تم سے پہلے دنیا بھر میں سے کسی نے نہیں کیا۔
اس بدکاری سے مرادوہی لواطت ہے۔جس کاارتکاب قوم لوط علیہ السلام نے ہی سب سے پہلے کیاجیساکہ قرآن نے صراحت کی ہے۔ یعنی تمہاری شہوت پرستی اس انتہاکوپہنچ گئی ہے۔کہ اس کے لیے طبعی طریقے تمہارے لیے ناکافی ہوگئے ہیں۔دوسری بدخصلت ان کی یہ تھی کہ راستے روکتے تھے،ڈاکے ڈالتے تھے،قتل وفسادکرتے تھے، مال لوٹ لیتے تھے مجلسوں میں علی اعلان بُری باتیں اورلغوحرکتیں کرتے تھے کوئی کسی کونہیں روکتا تھا۔ (تفسیر طبری: ۲۰/ ۲۹) میں ہے کہ وہ لواطت بھی علی اعلان کرتے تھے۔ اور ان کی سوسائٹی کاایک مشغلہ یہ بھی تھاکہ ہوائیں نکال کرہنستے تھے۔ (تفسیر طبری: ۲۰/ ۳۰) حدیث میں ہے راہ چلتوں پرآوازہ کشی کرتے تھے اورپتھرکنکرپھنکتے رہتے تھے۔سٹیاں بجاتے تھے۔کبوتربازی کرتے تھے،ننگے ہوجاتے تھے۔ کفر، عناد، سرکشی، ہٹ دھرمی یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ نبی کے سمجھانے پرکہنے لگے ۔کہ جاجابس نصیحت چھوڑ،جن عذابوں سے ڈرا رہا ہے۔ انھیں لے تو آ۔ ہم بھی تیری سچائی دیکھیں۔ (ترمذی: ۳۱۹۰)