وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ
(حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے) کہا کہ تم نے جن بتوں کی پرستش اللہ کے سوا کی ہے انھیں تم نے اپنی آپس کی دنیاوی دوستی کی بنا ٹھہرالی ہے (١) تم سب قیامت کے دن ایک دوسرے سے کفر کرنے لگو گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگو گے (٢) اور تمہارا سب کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا۔
ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایاکہ جن بتوں کو تم نے معبود بنا رکھاہے یہ تمہارا ایکا اور اتفاق دنیا تک ہی ہے۔ لیکن قیامت کے دن معاملہ برعکس ہوجائے گا۔ محبت کی جگہ نفرت اور اتفاق کی جگہ اختلاف ہوجائے گا، ایک دوسرے سے جھگڑو گے، ایک دوسرے پر الزام رکھو گے ۔ ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجو گے، معبود اپنے پرستاروں کی عبادت کاانکار کرتے ہوئے ان سے کہیں گے کہ ہم نے کب تمہیں کہاتھاکہ ہمارے بعد ہماری پوجا شروع کردینا۔ جب معبودوں کا یہ حال ہوگا تو عبادت گزاروں پر جنہوں نے ان سے کئی طرح کی توقعات وابستہ کر رکھی ہوں گی جو گزرے گی اس کاباآسانی اندازہ کیاجاسکتاہے۔ نتیجہ یہ ہوگاکہ جتنی آج یہ اپنے معبودوں اور اپنے ساتھیوں سے دوستی جتلا رہے ہیں اتنے ہی زیادہ اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے چنانچہ ارشاد ہے: ﴿اَلْاَخِلَّآءُ يَوْمَىِٕذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ ﴾ (الزخرف: ۶۷) ’’دوست اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے سوائے متقین کے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ قَالُوْا رَبَّنَا اِنَّا اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ كُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا رَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَ الْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيْرًا ﴾ (الاحزاب: ۶۷، ۶۸) ’’وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انھوں نے ہمیں راہ سے بے راہ کر دیا، اے ہمارے رب! تو انھیں دوہری سزا دے اور ان پر سخت لعنت فرما۔ ‘‘ اور آگ ان کا ٹھکانہ ہوگی ۔ ان کا وہاں کوئی مدد گار نہ ہوگا ۔ قوم کے باہمی اتحاد کی بنیاد شرکیہ رسوم: ایسا معلوم ہوتاہے کہ یہ جملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آگ سے صحیح سلامت نکل آنے کے بعد کہاتھا۔ یعنی تم لوگوں نے خدا پرستی کی بجائے بت پرستی کی بنیاد پر اپنی اجتماعی زندگی کی تعمیر کرلی ہے۔ جو دنیوی زندگی کی حدتک تو تمہیں متحد ومتفق رکھ سکتی ہے۔ اس لیے کہ یہاں قومی یگانگت کے لیے کوئی بھی بنیاد بنائی جاسکتی ہے۔ خواہ یہ بنیاد بجائے خود کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو جیسے آج کل وطن پرستی، قوم پرستی،نسل پرستی،ایسی ہی غلط بنیادوں پر لوگ متحدو متفق ہوجاتے ہیں۔ بت پرستوں کی یہی باہمی محبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر انتقام لینے کا سبب بنی تھی۔