سورة العنكبوت - آیت 17

إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِندَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ۖ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تم تو اللہ کے سوا بتوں کی پوجا پاٹ کر رہے ہو اور جھوٹی باتیں دل سے گھڑ لیتے ہو (١) سنو! جن جنکی تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا پاٹ کر رہے ہو وہ تمہاری روزی کے مالک نہیں پس تمہیں چاہیے کہ تم اللہ تعالیٰ ہی سے روزیاں طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کی شکر گزاری کرو (٢) اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ (٣)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

شرک کے خلاف ابراہیم علیہ السلام کے تین دلائل: (۱) یہ بت تمہارے اپنے گھڑے ہوئے ہیں۔گویاتم اللہ کی مخلوق ہواوریہ تمہاری مخلوق ہیں۔ اور الٰہ کی سب سے اہم صفت یہ ہے کہ وہ خالق ہے، باقی سب اس مخلوق اور جو مخلوق ہے، وہ الٰہ نہیں ہوسکتی اوریہ بت تومخلوق درمخلوق ہیں یہ الٰہ کیسے بن گئے (۲) دوسری دلیل یہ ہے ان بتوں کے نفع ونقصان سے متعلق تمہیں داستانیں اورقصے کہانیاں تراشناپڑتی ہیں۔اگرتمہارے ان قصے کہانیوں کوان سے علیحدہ کردیاجائے توباقی یہ پتھرکے پتھریابے جان مادے ہی رہ جاتے ہیں اورایسے مادے الٰہ کیسے ہوسکتے ہیں؟۔ (۳)تیسری دلیل یہ ہے کہ یہ تمہیں رزق کیادیں گے رزق توتم خودان کے آگے چڑھاووں، نذروں اور نیازوں کی صورت میں رکھتے ہو،چاہے توتم ان کے آگے رزق رکھ دو اور چاہے تو اُٹھالو۔چاہے ان کے اوپر مل دو۔ لہٰذا ایسے غلط عقائدان سے منسوب نہ کرؤ۔اوررزق مانگناہے تواللہ سے مانگو۔جس کاکھاؤاسی کے گن گاؤاسی کی عبادت کرو۔ اسی کا شکر ادا کرو۔ جب یہ بت تمہاری روزی کے اسباب ووسائل میں سے کسی بھی چیزکے مالک نہیں ہیں،نہ بارش برساسکتے ہیں،نہ زمین میں درخت اُگاسکتے ہیں اورنہ سورج کی حرارت پہنچاسکتے ہیں اورنہ تمہیں وہ صلاحتیں دے سکتے ہیں جنہیں تم بُروئے کارلاکرقدرت کی ان چیزوں سے فیض یاب ہوتے ہو۔توپھراسی کی عبادت اوراسی کی شکرگزاری کرو۔ لوٹنا اسی کی طرف ہی ہے: یعنی مرکراورپھردوبارہ زندہ ہوکرجب اسی کی طرف لوٹناہے،اسی کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے۔ تو پھر اس کا دامن چھوڑ کر دوسروں کے درپراپنی جبین نیازکیوں جھکاتے ہو۔اس کی بجائے دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو۔ اور دوسروں کو حاجت روااورمشکل کشاکیوں سمجھتے ہو۔