وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ
ذی علم انھیں سمجھانے لگے کہ افسوس! بہتر چیز تو وہ ہے جو بطور ثواب انھیں ملے گی جو اللہ پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں (١) یہ باتیں انہی (٢) کے دل میں ڈالی جاتی ہے جو صبر کرنے والے ہوں۔
جن لوگوں کے پاس دین کاعلم تھا اور وہ دنیا اور اس کے مظاہرکی اصل حقیقت سے باخبرتھے انہوں نے کہاکہ یہ کیاہے؟کچھ بھی نہیں،اللہ نے اہل ایمان اورعمل صالح بجالانے والوں کے لیے جواجروثواب تیار کر رکھاہے وہ اس سے کہیں زیادہ بہترہے۔ حدیث قدسی میں ہے: اللہ فرماتا ہے کہ ’’میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی ایسی چیزیں تیارکررکھی ہیں،جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا،کسی کان نے نہیں سنا،اورنہ کسی کے وہم وگمان میں ان کا گزر ہوا۔ (بخاری: ۴۷۷۹) تمہیں ان درجات کوحاصل کرنے کے لیے اس دو روزہ زندگی کو صبر و برداشت سے گزارنا چاہیے۔ جنت صابروں کا حصہ ہے۔ صبر کے مفہوم کی وسعت: یہاں صبر بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اپنے آپ کو صرف حلال کمائی کا پابند بنائے رکھنا بھی صبر ہے۔ اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرلینابھی صبرہے۔دنیاوی جاہ وقسمت کودیکھ کراس پر فریفتہ نہ ہونابھی صبر ہے۔ اور اخروی نجات وکامیابی کومطع نظربناکراپنے آپ کواحکام الٰہی کا پابند بنانا بھی صبر ہے۔ یعنی آخرت کاثواب اورکامیابی انہیں لوگوں کونصیب ہوگی،جنہوں نے اس دنیامیں صبرواستقلال اورثابت قدمی کامظاہرہ کیا ہوگا۔