سورة القصص - آیت 47

وَلَوْلَا أَن تُصِيبَهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اگر یہ بات نہ ہوتی کہ انھیں ان کے اپنے ہاتھوں آگے بھیجے ہوئے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی تو یہ کہہ اٹھتے کہ اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیتوں کی تابعداری کرتے اور ایمان والوں میں سے ہوجاتے (١)۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے دو مقاصد، اتمام حجت اور رفع عذر: یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے بندوں کی طرف اپنا نبی بنا کر بھیجا کہ تو ان لوگوں کو ہوشیار اور آگاہ کردے جن کے پاس تجھ سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ہدایت پائیں اور اس لیے بھی کہ ان کے پاس کوئی دلیل اور عذر باقی نہ رہ جائے ۔ یہ اپنے کفر کی وجہ سے عذابوں کو آتادیکھ کر یہ نہ کہہ سکیں کہ ان کے پاس کوئی رسول آیا ہی نہ تھا جو انھیں راہ راست کی تعلیم دیتا۔ اب تمہارے پاس بھی رب کی کتاب، دلیل ہدایت اور رحمت آچکی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جو خوشخبریاں دینے والے اورڈرانے والے ہیں تاکہ ان رسولوں کے بعد کوئی حجت اللہ پر باقی نہ رہ جائے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يٰاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلٰى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِيْرٍ وَّ لَا نَذِيْرٍ فَقَدْ جَآءَكُمْ بَشِيْرٌ وَّ نَذِيْرٌوَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ﴾ (المائدۃ: ۱۹) ’’اے اہل کتاب! بالیقین ہمارا رسول تمہارے پاس رسولوں کی آمد کے ایک وقفے کے بعد آپہنچاہے جو تمہارے لیے صاف صاف بیان کررہاہے تاکہ تمہاری یہ بات نہ رہ جائے کہ ہمارے پاس تو کوئی بھلائی، برائی سنانے والا آیاہی نہیں، پس اب تو یقیناً خوشخبری سنانے والا اور آگاہ کرنے والا آپہنچا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ الغرض رسول آچکے اور تمہارا یہ عذر ختم ہو گیا کہ اگر رسول آتے تو ہم اس کی مانتے اور مومن ہوجاتے۔