فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
جب بچی کو جنا تو کہنے لگی اے پروردگار! مجھے تو لڑکی ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ کیا اولاد ہوئی ہے اور لڑکا لڑکی جیسا نہیں (١) میں نے اس کا نام مریم رکھا (٢) میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں (٣)
میرے ہاں تو لڑکی پیدا ہوگئی: اس جملے میں حسرت کا اظہار بھی ہے اور عذر كا بیان بھی، حسرت اس طرح کہ میری اُمید کے برعکس لڑکی پیدا ہوگئی عذر اس طرح کہ نذر سے مقصود تو تیری رضا کے لیے ایک خدمتگار وقف کرنا تھا۔ اور یہ کام ایک مرد ہی کرسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے سیدہ مریم کو یوں تسلی دی ہے کہ یہ لڑکی لڑکے سے بدر جہا افضل ہے۔ حتیٰ کہ کوئی بھی لڑکا اس لڑکی کا جوڑ كا نہیں ہوسکتا لہٰذا افسوس کرنے کی کوئی بات نہیں۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو بچہ پیدا ہوتا ہے اس کی پیدائش کے وقت شیطان اسے چھوتا ہے تو وہ چلّا کر رونے لگتا ہے صرف مریم اور اس کے بیٹے (حضرت) عیسیٰ کو شیطان نے نہیں چھوا‘‘۔ (بخاری:۴۵۴۸)