سورة القصص - آیت 2

تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ آیتیں ہیں روشن کتاب کی۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہ آیتیں ہیں واضح، روشن صاف اور کھلے قرآن کی: تمام کاموں کی اصلیت سب گزشتہ اور آئندہ کی خبریں اس میں ہیں اور سب سچی اور کھلی خبریں اس میں ہیں۔ ہم تیرے سامنے موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا سچاواقعہ بیان کرتے ہیں۔ دراصل موسیٰ علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ شدید حالات میں فریضہ رسالت انجام دینے کا حکم ہواتھا۔ مثلاً (۱) سیدنا موسیٰ علیہ السلام جس قوم بنی اسرائیل کے فرد تھے فرعون نے انھیں کم تر درجہ کی مخلوق اور عملاً غلام بنا کر رکھاہواتھاجبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم قریش کے ہی ایک فرد تھے ۔ (۲) سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو فرعون جیسے متکبر، سرکش، فوراً بھڑک اٹھنے والے فرمانروا کے ہاں دعوت رسالت کے لیے بھیجا گیاتھا۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخاطبین اول آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنی ہی قوم کے افراد تھے ۔ (۳)سیدناموسیٰ علیہ السلام کو یہ بھی حکم تھاکہ دعوت توحید کے ساتھ اپنی قوم بنی اسرائیل کی رہائی کامطالبہ کریں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کوئی حکم نہ تھا۔ (۴) آپ فرعون کے اشتہاری مجرم تھے گویا مسلمانوں کے لیے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اس قصہ میں سبق یہ ہے کہ قرآن کا یہ قصہ بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو بتایاجائے کہ اللہ کے نافرمانوں اور متکبروں کا آخر کار کیا انجام ہوتاہے ۔ لیکن اس قصہ سے نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو ان واقعات کو درست تسلیم کرکے اور ان میں غور وفکر کرکے ایمان لانے والے ہوں۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے ایسے شدید حالات میں اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے سب مصائب برداشت کیے تو آپ کو بھی کرنا چاہییں اور بشارت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس معرکہ حق و باطل میں بالآخر اپنے پیغمبر اور ایمان لانے والوں کو ہی کامیاب کرتاہے اور ان کے دشمنوں کو نیست ونابود کردیتاہے۔