سورة آل عمران - آیت 30

يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

جس دن ہر نفس (شخص) اپنی کی ہوئی نیکیوں کو اور اپنی کی ہوئی برائیوں کو موجود پالے گا، آرزو کرے گا کہ کاش! اس کے اور برائیوں کے درمیان بہت سی دوری ہوتی۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نیکو کار اور بدکردار کا ذکر فرمایا ہے۔ بعد میں صرف بدکردار کی تمنا کا ذکر ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کی سختیوں اور دوزخ کے عذاب سے بچ جانا ہی اصل کامیابی ہے اور جنت میں داخلہ تو اللہ کا فضل اور انعام ہے وہ جس پر چاہے کردے۔ رسول اللہ نے فرمایا: ’’کہ میں جس کام سے تمہیں روکوں اس سے رک جا ؤ اور جس بات کا حکم دوں اس کو حسب استطاعت بجا لا ؤ۔‘‘ (بخاری: ۷۲۸۸) رب تعالیٰ كا ارشاد ہے: (فَاتَّقُوْا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ) ’’جتنا تم ہو سكے اللہ سے ڈرو۔‘‘یعنی جب آپ نے بُرے کام کا ذکر کیا تو یہ نہیں فرمایا کہ جہاں تک ہوسکے اسے بجالا ؤ۔ نیک اعمال کو بجالانے کی نسبت بُرے کام کو چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے اسی لیے کتاب و سنت میں برے کاموں کو چھوڑنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ (وَاللّٰہُ رَؤُفٌ بِالْعِبَادِ)اللہ کا اپنے بندوں پر ترس کھانا: اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو بُرے انجام سے آگاہ کردینا ہی اس کے بندوں پر ترس کھا نے کی بہت بڑی دلیل ہے۔