فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِّمَّا آتَاكُم بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ
پس جب قاصد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا کیا تم مال سے مجھے مدد دینا چاہتے ہو؟ (١) مجھے تو میرے رب نے اس سے بہت بہتر دے رکھا ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے پس تم ہی اپنے تحفے سے خوش رہو (٢)۔
وفد کو سلیمان علیہ السلام کا جواب: جب یہ وفد تحائف لے کر سیدنا سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے یہ تحفے قبول کرنے سے انکار کردیا اور انھیں واضح طور پر بتادیاکہ مال و دولت سے مجھے کچھ غرض نہیں ۔ میرے پاس تو پہلے ہی تم سے زیادہ مال و دولت موجود ہے ۔ میں مال و دولت کی رشوت لے کر اپنے ارادے سے باز نہیں رہ سکتا۔ یہ تمہارے تحفے تمہیں ہی مبارک ہوں۔ تمہارے لیے دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو تم شرک چھوڑ دواور مسلمان ہو کر میرے پاس آجاؤ۔ اس صورت میں تمہارا ملک تمہارے پاس رہے گا مجھے کوئی اپنی سلطنت بڑھانے کاشوق نہیں ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ہم تم لوگوں پر ایک پرزور حملہ کریں گے جس کی تم تاب نہ لاسکو گے ۔ اس صورت میں تمہارا جو حشر ہوگا وہ تم خود ہی سمجھ سکتے ہو۔وفد کے آنے سے پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کو حکم دیا اور انہوں نے سونے چاندی کے ایک ہزار محل تیار کردیے، جس وقت قاصد پایۂ تخت میں پہنچے، ان محلات کو دیکھ کر ان کے ہوش جاتے رہے اور کہنے لگے، یہ بادشاہ تو ہمارے اس تحفے کو اپنی حقارت سمجھے گا ۔ یہاں تو سونا مٹی جیسی وقعت بھی نہیں رکھتا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ بادشاہ کو یہ جائز ہے کہ بیرونی لوگوں کے لیے کچھ تکلفات کرے اور قاصدوں کے سامنے اپنی ذہنیت کااظہار کرے ۔ پھر آپ نے قاصدوں سے فرمایاکہ یہ ہدیے انہی کو واپس کردو ۔ جب قاصد اس تحفے کو لے کر واپس پہنچے اور شاہی پیغام بھی سنایا تو بلقیس کو آپ کی نبوت کایقین ہوگیا ۔ لہٰذا ملکہ سبا نے یہی مناسب سمجھاکہ ایسے پاکیزہ سیرت بادشاہ کے حضور خود حاضر ہونا چاہیے۔ چنانچہ اس نے مطیع و منقاد ہو کر جانے کی تیاری شروع کر دی۔