قَالُوا نَحْنُ أُولُو قُوَّةٍ وَأُولُو بَأْسٍ شَدِيدٍ وَالْأَمْرُ إِلَيْكِ فَانظُرِي مَاذَا تَأْمُرِينَ
ان سب نے جواب دیا کہ ہم طاقت اور قوت والے سخت لڑنے بھڑنے والے ہیں (١) آگے آپ کو اختیار ہے آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ ہمیں آپ کیا کچھ حکم فرماتی ہیں (٢)
سب نے متفقہ طور پر جواب دیا کہ ہماری جنگی طاقت بہت ہے اور ہماری طاقت مسلمہ ہے ۔ تاہم یہ فیصلہ کرنا کہ سلیمان علیہ السلام سے جنگ کرنی چاہیے یا ان کا مطیع فرمان بن جانا چاہیے یہ آپ کی صوابدیدپر منحصر ہے۔ گویا ملکہ کو اپنے مشیروں سے مشورہ کرنے کاکوئی خاص فائدہ نہ ہوا ماسوائے اس کے کہ اگر ملکہ مقابلہ کا ارادہ رکھتی ہو تو انہوں نے اپنی وفاداریوں کایقین دلادیا ۔ لہٰذا اس سے یہ بات ضمناً معلوم ہوجاتی ہے کہ سبا میں اگرچہ شاہی نظام رائج تھا تاہم یہ استبدادی نظام نہ تھابلکہ فرمانروااہم معاملات میں مشیروں سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتے تھے ۔