سورة الشعراء - آیت 227

إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ۗ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

سوائے ان کے جو ایمان لائے (١) اور نیک عمل کئے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا (٢) جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ بھی ابھی جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں (٣)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

کون سے شعراء اس کلیہ سے مستثنیٰ ہیں جن شعراء کی یہاں مذمت بیان کی گئی ہے؟ ان میں سے چار عادات والے شعراء مستثنیٰ ہیں۔ (۱) وہ ایمان لائے ہوں ۔(۲)۔انہوں نے نیک اعمال کو اپناطرز زندگی بنالیا ہو ۔(۳)اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہتے ہوں کسی وقت بھی ان کے دل اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوں۔ (۴) اور وہ جو کچھ کہیں ظالموں کے مقابلہ میں حق کی حمایت میں شعر کہیں ۔ کسی کی ہجو اپنی ذاتی اغراض کے ماتحت نہ کریں ۔ مثلاً اشیاء کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کریں، نیکی کی ترغیب دیں ۔ کفر اور گناہوں کی مذمت بیان کریں ۔ اگر کافر مسلمانوں یا پیغمبر اسلام کی ہجو بیان کریں تو اس ہجو کا اسی طرح جواب دے کہ اس ظالم کابدلہ لے لیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قریش نے مسلمانوں کی ہجو کی تو آپ نے مسلمانوں سے کہاکہ ان کی ہجو کاجواب دو ۔ کیونکہ ہجو قریش کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے۔ پھر عبداللہ بن رواحہ کو ہجو کرنے کو کہا۔ لیکن ان کی ہجو آپ کو پسند نہ آئی، پھر آپ نے کعب بن مالک سے کہا،پھر حسان بن ثابت سے ہجو کرنے کو کہا اور ساتھ ہی یہ بتادیاکہ ذرا دھیان رکھناکہ میں بھی قریش سے ہوں۔ سیدنا حسان کہنے لگے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچا پیغمبر بنا کے بھیجاہے ۔ میں آپ کو قریش سے ایسے نکال لوں گا جیسے آٹے سے بال نکال لیا جاتاہے۔ (مسلم: ۲۴۸۷) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان کے حق میں دعا کی۔ یا اللہ اس کی روح القدس سے مدد کر نیز فرمایا: حسان! جب تک تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب دیتا رہے گا ۔ روح القدس تیری مدد کرتارہے گا۔ نیز فرمایاحسان نے قریش کی ہجو کرکے مومنوں کے دلوں کو تسکین دی اور کافروں کی عزت کو تباہ کردیا ۔ (مسلم: ۲۴۹۰) حسان بن ثابت کا طویل قصیدہ مسلم شریف میں مذکور ہے۔ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن اور شاعر یا ساحر اور مجنون قرار دیتے تھے ان کی غرض یہ تھی تاکہ دعوت دین اسلام میں طر ح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرکے حق کو نیچا دکھا سکیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے۔ (بخاری: ۲۴۴۷)