سورة الشعراء - آیت 4

إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ آيَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اگر ہم چاہتے تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتارتے کہ جس کے سامنے ان کی گردنیں خم ہوجاتیں (١)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جبری ایمان اللہ کو مطلوب نہیں: اگر ان کا ایمان لانا ہی مطلوب ومقصود ہوتا تو یہ کام یوں بھی ہوسکتا تھا کہ ہم کوئی ایسا معجزہ نازل کر دیتے جن کی بنا پر یہ ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے مگر یہ ہماری مشیت کے خلاف ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيْعًا اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ﴾ (یونس: ۹۹) ’’اگر تیرا رب چاہے تو روئے زمین کے تمام لوگ مومن ہو جائیں، کیا تو لوگوں پر جبر کرے گا جب تک کہ وہ مومن نہ ہو جائیں۔‘‘ ایسا جبری ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں، مطلوب تو یہ ہے کہ انھیں راہ ہدایت سمجھا دی، کتابیں اتار دیں، رسول بھیج دیئے، اپنی دلیل وحجت قائم کر دی اور انسان کو ایمان لانے نہ لانے کا مختار بھی کر دیا۔ اب جس راہ پر وہ چاہے لگ جائے۔ ورنہ اللہ انسان کو بھی دوسری مخلوق کی طرح پیدا کر سکتا تھا جو اللہ کے سامنے ہر حال میں سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہو۔