قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ ۖ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا
کہہ دیجئے! اگر تمہاری دعا التجا (پکارنا) نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری مطلق پرواہ نہ کرتا (١) تم تو جھٹلا چکے اب عنقریب اس کی سزا تمہیں چمٹ جانے والی ہوگی (٢)۔
اللہ کی بے نیازی: یعنی اگر تم اللہ کو پکارو گے، اس کی عبادت کرو گے، اس کے حضور توبہ واستغفار کرو گے، اس سے اپنی حاجتیں طلب کرو گے تو اس میں تمہارا اپنا ہی بھلا ہے اور اگر تم ان باتوں میں بے نیازی کا مظاہرہ کرو گے تو اللہ کی کوئی ضرورت تمہاری پکار یا دعا یا عبادت نہ کرنے کی وجہ سے اٹکی ہوئی نہیں۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے میرے بندو! تم نہ میرا کچھ نقصان کر سکتے ہو اور نہ مجھے کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہو۔ اگر تمہارے اگلے اور پچھلے، آدمی اور جن، سب ایسے ہو جائیں جیسے تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار شخص ہے تو اس سے میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ ہوگا اور اگر تمہارے اگلے پچھلے اور آدمی اور جن سب ایسے ہو جائیں جیسے تم میں سب سے بدکردار ہے تو بھی میری سلطنت میں کچھ کمی واقع نہ ہوگی۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جن سب ایک میدان میں جمع ہو کر مجھ سے مانگنا شروع کر دیں اور میں ہر ایک کو وہی کچھ دیتا جاؤں جو کچھ اس نے مانگا ہے تو جو کچھ میرے پاس ہے اس میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا مگر اتنا جیسے سمندر میں سوئی کو ڈبو کر نکال لیا جاتا ہے۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جنھیں میں تمہارے لیے شمار کرتا رہتا ہوں پھر تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا۔ سو جس کو اچھا بدلہ ملا اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کی حمد وثنا بیان کرنا چاہیے، اور جسے برا بدلہ ملے تو اسے اپنے آپ کو ہی ملامت کرنا چاہیے۔ (مسلم: ۳۱۴۲) کیا اچھے اور برے اعمال کے نتائج لابدی ہیں؟ اس آیت کے مخاطب قریش مکہ ہیں جنھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جھٹلایا اور اس کی آیات کو بھی۔ اس تکذیب کا انجام ان کے گلے کی پھانس بن گیا۔ ان پر اللہ کی گرفت کا آغاز غزوہ بدر سے ہوا۔ پھر اس گرفت میں دم بدم اضافہ ہوتا گیا حتیٰ کہ جب مکہ فتح ہوا تو انھیں اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور جزیرہ عرب سے کفر وشرک یا کافروں اور مشرکوں کا نام ونشان تک مٹ گیا۔ اور ان میں سے وہی زندہ رہے جنھوں نے اسلام کی آغوش میں پناہ لے لی۔