وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَٰنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا ۩
ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ رحمان کو سجدہ کرو تو جواب دیتے ہیں رحمان ہے کیا ؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دے رہا ہے اور اس (تبلیغ) نے ان کی نفرت میں مزید اضافہ کردیا (١)
(رحمٰن، رحیمٌ) اللہ کی صفات اور اسمائے حسنیٰ میں سے ہیں لیکن اہل جاہلیت اللہ کو ان ناموں سے نہیں جانتے تھے، مشرکین اللہ کے سوا اوروں کو سجدے کرتے تھے اور جب ان سے رحمن کو سجدہ کرنے کو کہا جاتا تھا تو کہتے تھے کہ ہم رحمن کو نہیں جانتے۔ جیسے صلح حدیبیہ والے سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح نامہ کے کاتب سے فرمایا: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھ تو مشرکین نے کہا نہ ہم رحمن کو جانیں نہ رحیم کو۔ ہمارے رواج کے مطابق بِسْمِکَ اللّٰہُمَّ لکھ۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری قُلِ ادْعُو اللّٰہَ اَوِدْعُوا الرَّحْمٰن کہہ دے کہ اللہ پکارو یا رحمن کو۔ جس نام سے چاہو اسے پکارو۔ اس کے بہت سے بہترین نام ہیں۔ وہی اللہ ہے وہی رحمن ہے۔ مشرکین کہتے تھے کہ کیا صرف تیرے کہنے سے ایسا مان لیں؟ الغرض وہ اس سے نفرت میں اور بڑھ گئے۔ آیت کے اختتام پر سجدہ تلاوت مشروع ہے۔ قاری کے لیے بھی اور سامع کے لیے بھی۔ تاکہ اللہ کے اطاعت گزاروں میں اور قریش مکہ جیسے اسلام دشمنوں کے درمیان فرق معلوم ہو سکے۔