وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا
اور بیشک ہم نے اسے ان کے درمیان طرح طرح سے بیان کیا تاکہ (١) وہ نصیحت حاصل کریں، مگر پھر بھی اکثر لوگوں نے سوائے ناشکری کے مانا نہیں۔ (٢)
بارش اللہ کے حکم سے برستی ہے: پس چاہیے تو یہ تھا کہ اللہ کی ان حکمتوں اور قدرتوں کو دیکھ کر اس بات کو بھی مان لیتے کہ ہم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور یہ بھی جان لیتے کہ بارشیں ہمارے گناہوں کی شامت سے بند کر دی جاتی ہیں۔ تو ہم گناہ چھوڑ دیں، لیکن ان لوگوں نے ہماری نعمتوں پر ناشکری کی۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ ایک مرتبہ بارش برس چکنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رب تعالیٰ فرماتے ہیں: میرے بندوں میں سے بہت سے میرے ساتھ مومن ہوگئے اور بہت سے کافر ہوگئے جنھوں نے کہا کہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ بارش ہم پر برسی ہے، وہ تو میرے ساتھ ایمان رکھنے والے اور ستاروں سے کفر کرنے والے ہوئے اور جنھوں نے کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے پانی برسایا گیا، انھوں نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لائے۔ (بخاری: ۸۴۶)