أَلَمْ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے سائے کو کس طرح پھیلا دیا ہے؟ (١) اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا ہی کردیتا (٢) پھر ہم نے آفتاب کو اس پر دلیل بنایا (٣)۔
توحید پر دلائل، اگر وہ چاہے تو رات کو دن میں نہ بدلے: تفسیر طبری میں ہے اللہ تعالیٰ مختلف اور متضاد چیزوں کو پیدا کر رہا ہے۔ سائے کو وہ بڑھاتا ہے کہتے ہیں کہ یہ وقت صبح صادق سے لے کر سورج کے نکلنے تک کا ہے۔ اگر وہ چاہتا تو اسے ایک ہی حالت پر رکھ دیتا۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر وہ رات ہی رات رکھے تو کوئی دن نہیں کر سکتا اور اگر دن ہی دن کرے تو کوئی رات نہیں لا سکتا۔ اگر سورج نہ نکلتا تو سائے کا حال ہی معلوم نہ ہوتا۔ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ سائے کے پیچھے دھوپ، دھوپ کے پیچھے سایہ، یہ دونوں اللہ کی نعمتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سایوں کو پھیلاؤ سے سمیٹتا ہے تو بھی آہستہ آہستہ بتدریج سمیٹتا ہے۔ پھر اس کے بعد سائے آہستہ آہستہ بتدریج بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس تدریج میں بہت سے فوائد مضمر ہیں اور دنیا میں جو بھی تغیر واقع ہوتا ہے اس میں تدریج کا قانون کام کرتا ہے۔ اگر یہ تدریج کا قانون نہ ہوتا تو ہر جاندار کے لیے زندگی دوبھر ہو جاتی۔ مثلاً سورج طلوع ہوتے ہی اتنی شدید گرمی ہوتی جیسے دوپہر کو ہوتی ہے اور یہ گرمی سورج کے غروب ہونے تک اتنی ہی تیزی سے رہتی پھر غروب ہونے پر یک لخت سردی ہو جاتی تو یہ چیز بھی ہر جاندار کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتی تھی۔