إِن كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَيْهَا ۚ وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلًا
(وہ تو کہئے) کہ ہم اس پر جمے رہے ورنہ انہوں نے تو ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی (١) اور یہ جب عذابوں کو دیکھیں گے تو انھیں صاف معلوم ہوجائے گا کہ پوری طرح راہ سے بھٹکا ہوا کون تھا ؟ (٢)
کفار کی ہر زمانے میں اپنے نبیوں کے ساتھ یہی حالت رہی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ﴿وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ﴾ (الانعام: ۱۰) ’’تجھ سے پہلے کے رسولوں کا بھی مذاق اڑایا گیا۔‘‘ کہنے لگے، وہ تو ہم ہی پوری مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے اپنے باپ دادا کے دین پر جمے رہے ورنہ اس رسول نے تو تمہیں بہکانے میں کوئی کمی نہ رکھی تھی۔ عنقریب انھیں معلوم ہو جائے گا کہ ہدایت پر یہ کہاں تک تھے، عذاب کو دیکھتے ہی آنکھیں کھل جائیں گی۔ اصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے خواہش پرستی اپنا رکھی ہے، نفس اور شیطان جس چیز کو اچھی ظاہر کرتا ہے یہ بھی اسے اچھی سمجھنے لگتے ہیں۔ پھر بھلا ان کا ذمہ دار آپ کو کیسے ٹھہرا سکتے ہیں؟