وَعَادًا وَثَمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَيْنَ ذَٰلِكَ كَثِيرًا
اور عادیوں اور ثمودیوں اور کنوئیں والوں کو (١) اور ان کے درمیان کی بہت سی امتوں کو (٢) (ہلاک کردیا)۔
قوم ثمود اور قوم عاد کا ذکر تو قرآن میں بہت سے مقامات پر مذکور ہے، مگر اصحاب الرس یا کنویں والوں کا ذکر صرف دو مقامات پر آیا ہے، ایک اس جگہ اور دوسرا سورت ق کی آیت نمبر ۱۲ میں۔ اصحاب الرس کون ہیں؟: رس کا لغوی معنی ہے کنواں۔ اصحاب الرس کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ زیادہ مشہور بات یہی ہے اس سے مراد اہل انطاکیہ ہیں ان کی طرف حبیب نجار نبی مبعوث ہوئے تو انھوں نے انھیں جھٹلایا، لیکن آپ بدستور انھیں اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے بالآخر ان لوگوں نے آپ کو مار کر کنوئیں میں ڈال دیا، اسی وجہ سے یہ اصحاب الرس کے لقب سے مشہور ہوئے پھر اللہ نے اس کنوئیں سمیت اس بستی کو زمین میں دھنسا دیا۔ (وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ)