وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ۚ كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا
اور کافروں نے کہا اس پر قرآن سارا کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا (١) اسی طرح ہم نے (تھوڑا تھوڑا) کرکے اتارا تاکہ اس سے ہم آپ کا دل قوی رکھیں، ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے (٢)۔
کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ جیسے تورات، انجیل، زبور وغیرہ ایک ساتھ پیغمبروں پر نازل ہوتی رہیں یہ قرآن ایک ہی بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کیوں نازل نہ ہوا۔ اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہم نے حالات ضروریات کے مطابق اس قرآن کو تئیس سال میں تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا تاکہ اے پیغمبر! تیرا اور اہل ایمان کا دل مضبوط ہو۔ اور ان کے خوب ذہن نشین ہو جائے اور ایک دم عمل کرنے میں مشکل نہ پڑے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّ نَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا﴾(بنی اسرائیل: ۱۰۶) ’’اور قرآن، اس کو ہم نے جدا جدا کیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر رک رک کر پڑھے اور ہم نے اس کو وقفے وقفے سے اتارا۔‘‘ اس قرآن کی مثال اس بارش کی طرح ہے جو جب بھی نازل ہوتی ہے، مردہ زمین میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور یہ فائدہ بالعموم اسی وقت ہوتا ہے جب بارش وقتاً فوقتاً نازل ہونا کہ ایک ہی مرتبہ ساری بارش کے نزول سے۔