وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ۗ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا
اور جنہیں ہماری ملاقات کی توقع نہیں انہوں نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے؟ (١) یا ہم اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھ لیتے (٢) ان لوگوں نے اپنے آپ کو ہی بہت بڑا سمجھ رکھا ہے اور سخت سرکشی کرلی ہے۔
کفار کا مطالبہ، کہ فرشتے ہم پر نازل ہوں: کفار مکہ کے لغو قسم کے مطالبات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جیسے تم پر فرشتہ نازل ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے پاس بھی فرشتے آئیں تاکہ ہمیں پورا یقین ہو جائے کہ جو کچھ تمہاری دعوت ہے وہ درست ہے، اور اگر یہ نہیں تو ہم کم از کم اپنے رب کو ہی دیکھ لیں جو ہمیں ایک دفعہ یہ کہہ دے کہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) میرا رسول ہے اور اس پر ایمان لانا تمہارے لیے ضروری ہے: ﴿وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَا اِلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةَ وَ كَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَ حَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا ﴾(الانعام: ۱۱۱) ’’اگر ہم ان پر فرشتوں کو بھی اتارتے، اور ان سے مردے باتیں کرتے، اس وقت کی اور بھی تمام چیزیں ہم ان کے سامنے کر دیتے جب بھی انھیں ایمان لانا نصیب نہ ہوتا۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کے یہ مطالبات اس لیے نہیں ہیں کہ اگر ان کی بات پوری ہو جائے تو یہ ایمان لانے کو بالکل تیار بیٹھے ہیں۔ بلکہ یہ ایسا اس لیے کر رہے ہیں کہ انھیں مرنے کے بعد ہمارے حضور پیش ہونے کا یقین نہیں ہے اگر یقین ہوتا تو ایسی باتیں نہ بناتے۔ بہت بڑے بن بیٹھے ہیں: یعنی ہم نے جو ان کو مال و دولت کی فراوانی اور آسودگی عطا کی ہے تو یہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے ہیں اور اسی استکبار اور سرکشی کا نتیجہ ہے کہ وہ اس قسم کے مطالبے کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے خلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو ایمان بالغیب کے ذریعے سے لوگوں کو آزماتا ہے اگر وہ فرشتوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے اتار دے یا آپ خود زمین پر نزول فرما لے، تو اس کے بعد ان کی آزمائش کا پہلو ہی ختم ہو جائے گا۔ جو اس کی حکمت تخلیق اور مشیت تکوینی کے خلاف ہے۔