وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ ۖ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا
اور کافروں نے کہا یہ تو بس خود اسی کا گھڑا گھڑایا جھوٹ ہے جس پر اور لوگوں نے بھی اس کی مدد کی (١) ہے، دراصل یہ کافر بڑے ہی ظلم اور سرتاسر جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔
مشرکین مکہ کا یہ اعتراض تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کتاب گھڑنے میں یہود سے یا ان کے بعض موالی مثلاً ابوفکیہہ، یسار، عداس اور جبر وغیرہ سے جو پڑھے لکھے تھے اور مسلمان ہوگئے تھے، سے مدد لی ہے اور یہ باتیں ان سے سیکھی ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ اگلی کتابوں کے قصے ہیں جو اس نے لکھوا لیے ہیں وہی صبح وشام اس کی مجلس میں پڑھے جا رہے ہیں۔ یہاں قرآن نے اس کو ظلم اور جھوٹ سے تعبیر کیا ہے۔ بھلا ایک امی شخص دوسروں کی مدد سے ایسی کتاب پیش کر سکتا ہے۔ جو فصاحت و بلاغت اور اعجاز کلام میں بے مثال ہو۔ حقائق و معارف بیانی میں بھی معجز نگار ہو، انسانی زندگی کے لیے احکام وقوانین کی تفاصیل میں بھی لا جواب ہو، اور ماضی کی خبریں اور مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی نشاندہی اور وضاحت میں بھی اس کی صداقت مسلم ہو، لہٰذا یہ اعتراض قرآن کریم کی داخلی، خارجی شہادت اور عقلی دلائل کے لحاظ سے محض ایک افترا اور جھوٹ کا پلندہ ہے۔