أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءَهُم مَّا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ
کیا انہوں نے اس بات میں غور و فکر ہی نہیں کیا (١) بلکہ ان کے پاس وہ آیا جو ان کے اگلے باپ دادوں کے پاس نہیں آیا تھا (٢)۔
قرآن کریم سے فرار: اللہ تعالیٰ مشرکوں کے اس فعل کا ذکر کر رہا ہے جو وہ قرآن کو نہ سمجھنے اور اس پر غور و فکر نہ کرنے میں کر رہے تھے اور اس سے منہ پھیر لیتے تھے حالانکہ اللہ رب العزت نے ان پر اپنی وہ پاک اور بابرکت کتاب نازل فرمائی تھی جو کسی نبی پر نہیں اتاری گئی تھی یہ سب سے اکمل، اشرف اور افضل کتاب ہے۔ ان کے باپ دادا جاہلیت میں مرے تھے جن کے ہاتھوں میں کوئی آسمانی کتاب نہ تھی، نہ ان میں کوئی پیغمبر ہی آیا تھا۔ تو انھیں چاہیے تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانتے، کتاب اللہ کی قدر کرتے اور دن رات اس پر عمل کرتے۔ جیسے کہ ان میں سے ان کے سمجھ داروں نے کیا کہ وہ مسلمان اور متبع رسول ہو گئے اور اپنے اعمال سے اللہ کو راضی کرنا شروع کر دیا۔