سورة المؤمنون - آیت 55

أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا یہ (یوں) سمجھ بیٹھے ہیں؟ کہ ہم جو بھی ان کے مال و اولاد بڑھا رہے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

کیا آسودہ حالی اللہ کی رضامندی کی علامت ہے؟ دنیا دار اور جاہل لوگ، عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ آسودہ حالی اللہ کی رضامندی کی علامت ہوتی ہے۔ کیا یہ مغرور لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم جو مال و اولاد انھیں دے رہے ہیں، وہ ان کی بھلائی اور نیکی کی وجہ سے ان کے ساتھ سلوک کر رہے ہیں؟ ہرگز نہیں یہ تو انھیں دھوکا لگا ہے۔ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ جیسے ہم یہاں خوش حال ہیں وہاں بھی بے سزا رہ جائیں گے۔ یہ محض دھوکا ہے ہم جو کچھ انھیں دنیا میں دے رہے ہیں وہ تو صرف ذرا سی دیر کی مہلت ہے۔ لیکن یہ بے شعور ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا﴾ (التوبۃ: ۵۵) ’’تجھے ان کے مال و اولاد دھوکے میں نہ ڈالیں، اللہ کا ارادہ تو یہ ہے کہ اللہ اس سے انھیں دنیا میں عذاب کرے۔‘‘ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہی اللہ کا شکر ہے پس تم انسانوں کو مال اور اولاد سے نہ پرکھو، بلکہ انسان کی کسوٹی ایمان اور نیک عمل ہے۔ (ابن کثیر: ۳/ ۵۵۹) نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے اخلاق بھی تم میں اس طرح تقسیم کیے ہیں جس طرح روزیاں تقسیم فرمائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا تو اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت رکھے اور اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت نہ رکھے۔ ہاں دین صرف اسی کو دیتا ہے جس سے پوری محبت رکھتا ہے، پس جسے اللہ دین دے، سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اور زبان مسلمان نہ ہو جائے، اور بندہ مومن نہیں ہوتا، جب تک اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بے فکر نہ ہو جائیں۔ لوگوں نے پوچھا کہ ایذاؤں سے کیا مراد ہے؟ فرمایا دھوکے بازی، ظلم وغیرہ۔ سنو جو بندہ حرام مال حاصل کرے، اس کے خرچ میں برکت نہیں ہوتی۔ اس کا صدقہ قبول نہیں ہوتا، وہ جو چھوڑ کر جاتا ہے وہ اس کا جہنم کا توشہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا، ہاں برائی کو بھلائی سے رفع کرتا ہے۔ خبیث خبیث کو نہیں مٹاتا۔ (احمد: ۱/ ۳۸۷)