وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
ان لوگوں کی مثال ہے جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو (١) اور زور دار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دو گنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی پڑے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
بلند زمین پر ایک باغ: ایسی زمین قدرے نرم اور عموماً سرسبز و شاداب ہوتی ہے۔ پنجابی زبان میں اسے میرا زمین کہتے ہیں۔ زورکا مینہ برسنا: یعنی انتہائی خلوص نیت سے، اللہ کی رضا کے لیے اور اپنے دل کی پوری پوری خوشی سے مال خرچ کرنا، جتنا جذبہ گہرا ہوگا اتنا ہی فائدہ ہوگا پھل بھی زیادہ یعنی اجر بھی زیادہ ملے گا۔ فقرا ء پر خرچ، یتیموں، مسکینوں پر خرچ، ضعیف لوگوں پر، اس طرح لوگوں سے روابط بھی پیدا ہوتے ہیں۔ پھوار سے مراد: ایسی خیرات جس میں اللہ کی رضا، دل کی خوشی موجود تو ہو مگر اتنے اعلیٰ درجے کی نہ ہو۔ دونوں صورتوں میں اجر و ثواب تو ضرور ملے گا مگر پہلی صورت کا اجروثواب پچھلی سے بہر حال کئی گنازیادہ ہوگا۔ دل کا اطمینان ملتا ہے۔ اگر آسان حالات میں خرچ کریں تو تھوڑا سکون اور اگر مشکل یعنی تنگدستی میں اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے تو زیادہ سکون ملتا ہے۔ پھر جہاں فائدہ نظر نہ آئے، جہاں دل نہ چاہے، جہاں وسوسے آتے ہوں وہاں خرچ کرے تو دل کو سکون ملتا ہے۔