إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّىٰ حِينٍ
یقیناً اس شخص کو جنون ہے، پس تم اسے ایک وقت مقرر تک ڈھیل دو (١)۔
قوم نوح علیہ السلام نے کہا، یہ ہمیں اور ہمارے باپ دادوں کو بتوں کی عبادت کرنے کی وجہ سے، بے وقوف اور کم عقل سمجھتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود ہی دیوانہ ہے۔ اسے ایک وقت تک ڈھیل دو، موت کے ساتھ ہی اس کی دعوت بھی ختم ہو جائے گی، یا ممکن ہے اس کی دیوانگی ختم ہو جائے اور اس دعوت کو ترک کر دے۔ نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال دعوت توحید دی اتنی طویل مدت میں بہت کم لوگ ایمان لائے۔ سیدنا نوح علیہ السلام کو یہ یقین ہو گیا کہ اب جو کافر موجود ہیں وہ اس قدر ضدی اور ہٹ دھرم واقع ہوئے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی دعوت حق کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہو گا۔ یہ کافر لوگ حضرت نوح علیہ السلام کو ذہنی کوفت اور اذیت کا باعث ہی بن رہے تھے بالآخر آپ علیہ السلام نے رب سے دعا کی: ’’یا اللہ! یہ قوم مجھ پر غالب آ گئی ہے، اب تو ہی میری مدد فرما اور ان سے اس ظلم کا بدلہ لے جو انھوں نے اتنی طویل مدت مجھ پر ڈھایا ہے۔‘‘